Sunday 24 May 2015

گلزار کی ایک نظم


گلزار کی ایک نظم



کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے​
 

Saturday 23 May 2015

’’نان پروفیشنل‘‘

’’نان پروفیشنل‘‘ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحان فانی
23/05/2015
کافی عرصہ ہوا ایک بڑے چینل کے معروف انٹرٹینمنت پروگرام کی پروڈکشن ٹیم کے لئے انٹرویو میں شامل تھا ۔ میرے ساتھ دو بہن بھائی بھی تھے ۔ لڑکی نے باقاعدہ ماس کمیونیکیشن(صحافت) میں ماسٹرز کیا ہوا تھا جبکہ اس کے بھائی کی تعلیم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تھی ۔انٹرویو غیر رسمی سا تھا ۔بس جنرل سی پوچھ تاچھ ۔آخر میں بہن نے بھائی کے حوالے سے انٹرویو لینے والے کو کہا کہ یہ بھی میڈیا میں آنا چاہتا ہے ۔ اسے بہت شوق ہے ۔اگر ممکن ہو تو اس کا بھی انٹرویو کر لیجیے۔کچھ خصوصیات بھی گنوائیں بھائی کی۔ ان (پروڈیوسر)صاحب نے بڑی ہمدرری سے جواب دیا کہ ’’بھائی! آپ کی ڈگری آئی ٹی کی ہے ،بہتر ہے آپ اسی میدان میں طبع آزمائی کریں ۔ یہاں میڈیا میں ملازمت کا پہلا حق تو ان نوجوانوں کا ہے جو ماس کمیونیکشن (صحافت) کی ڈگری کے حامل ہیں ۔‘‘ میری سیلیکشن نہ ہوئی کیونکہ تقاضے کچھ ایسے تھے جو میں نبھا نہ سکا لیکن اچھا لگا ان پروڈیوسر صاحب سے مل کر ۔ میرے خیال میں وہ خود بھی کہیں سے ماس کمیونیکشن میں گریجوئیٹ تھے۔ یہ سوچنے کا ایک انداز ہے ۔ ایک اور رائے بھی سننے کو ملتی ہے کہ پروفینشل صحافی بننے کے لئے ماس کمیونیکشن یا میڈیا اسٹیڈیز میں گریجوئیشن ناگزیر ہے ۔میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔صحافت کا تعلق اکڈیمکس سے زیادہ پریکٹس سے ہے ۔ یہی وجہ ہے ہماری برصغیر کی تاریخ میں کئی ایسے صحافی گزرے جو ماس کمیونیکیشن نامی چیز سے کبھی واقف نہ تھے ۔ سو جس عامل صحافی نے مذکورہ ڈگری حاصل نہیں کی، آپ اسے بیک جنبشِ لب ’’نان پروفیشنل‘‘ نہیں کہ سکتے۔ شرط یہ ہے کہ اسے خبر تلاشنے اور بنانے کا ڈھنگ آتا ہو ۔ یہ بات بالکل درست ہے بعض گھس بیٹھئے بھی کوچۂ صحافت میں دندنا رہے ہیں ۔ ان کا عملی صحافت کا کوئی پس منظر نہیں ۔ ان کا کریئر بس کسی مہربان لمحے میں ملنے والے شارٹ کٹ کا مرہون منت ہے ۔ ان کی وجہ سے جنویئین صحافیوں کی عزت کو کوئی خطرہ نہیں ۔ یہ لوگ مخصوص موسموں میں آتے ہیں بالکل برساتی کھمبیوں کے جیسے اور پھرجلد ہی حالات کی گرد ہو جاتے ہیں ۔جہاں تک ماس کمیونیکشن میں آنرز یا ماسٹرز ڈگری کا تعلق ہے ،میں اسے پاکستانی صحافت کے تناظر میں ایک اضافی خوبی سمجھتا ہوں ۔ اس سے ایک صحافی کو ابلاغیات اور سوشل سائنسز سے جڑے نظریات اور ابحاث کا علم ہوتا ہے ۔ وہ فیلڈ میں ایک بااعتماد اپروچ کے ساتھ اترتا ہے ۔ اپنی اسائنمنٹس کو تکنیکی مہارت کے ساتھ مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس کا صحافتی ٹریک ذرا سسٹیمیٹک سا ہو جاتا ہے ۔ یہ بہت اچھی بات ہے ۔ بس سمجھ میں یہ آتا ہے کہ ہرماس کمیونیکشن گریجوئیٹ صحافی نہیں ہوتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر اچھا صحافی ماس کمیونیکیشن میں گریجوئیٹ ہی ہو ۔ اور اگر یہ دونوں خوبیاں جمع ہو جائیں تو کون کافر اس کے اچھا صحافی ہونے سے انکار کرتا ہے ۔

Saturday 16 May 2015

ارے بھئی! تم نے تو واقعی کمال کر دیا


ارے بھئی! تم نے تو واقعی کمال کر دیا




”اس کا کام پروفیشنل سفاکی سے بھرا پڑا ہے“
یہ فلیپ پر لکھی تعارفی تحریر کا آخری جملہ ہے ۔ابھی دو دن قبل یہ کتاب میرے ہاتھ لگی ۔نگارشارت کی تازہ ترین اشاعت ہے ۔کتاب میں پاکستان کی اخباری صحافت کا ایک منفرد جائزہ لیا گیا ہے ۔آپ اسے بجا طور پر تنقیدی جائزہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔
کتاب کھولی تو بس پڑھتا ہی چلا گیا ۔پہلے نوائے وقت کی بات چلی ۔کچھ ماضی کی باتیں کرنے کے بعد عارف نظامی کا طویل انٹر ویو شامل کیا گیا ۔نوائے وقت کے اندرونی بحران کی کہانی عجیب ہے ۔پھر مجید نظامی کا انٹرویو ہے ۔میدان صحافت میں موجود لوگ سمجھ سکتے ہیں کی عارف نظامی کے بعد مجید نظامی کے انٹرویو کا کیا مطلب ہے ۔
یہ انٹرویوز پڑھتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ کتاب کے مصنف کو فلیپ پرجو ”پروفیشنل سفاکی“ کا حامل آدمی کہا گیا،وہ بالکل بجا ہے۔
ٓآپ خود دیکھئے کہ وہ مجید نظامی سے کیا سوال کرتا ہے۔
سوال:آپ اپنی تقریروں میںاکثر کہتے ہیں ،ہندوبنیا،مکار،عیار،۔۔۔۔۔۔تو پاکستان میں لاکھوں ہندو آباد ہیں۔۔۔؟
جواب:ہوتے رہیں ۔ ۔ ۔
ایک اور سوال:کہا جاتا ہے آپ خوشامد بہت پسندکرتے ہیں۔نظریہ¿ پاکستان اور اخبار میں بھی آپ کے گرد خوشامدی ہیں؟جواب خود پرھیئے ۔طویل ہے لکھا نہیں جاتا ۔
اس گفتگو میں بھتیجے کے علاوہ نذیر ناجی،شہباز شریف،نواز شریف بھی زیر بحث آئے ،مجید نظامی نے نواز شریف کو انا پرست قرار دیا ۔
اس کے بعدہے قصہ روزنامہ پاکستان کا
خود سمجھ لیجئے پہلے سردار خاں نیازی کا طویل انٹرویو ہے اوراس کے متصل بعد ۔ ۔ ۔کس کا ہو سکتا ہے؟
سمجھ تو گئے ہوں گے آپ ۔ ۔ ۔ جی اس کے بعد مجیب الرحمان شامی کا انٹرویو ہے ۔
ایس کے نیازی نے کھلی گفتگو کی جبکہ شامی صاحب نے محتاط لب ولہجہ اختیار کیا ۔بس وہ اکثر”لعنت االلہ علی الکاذبین“ کہتے رہے ۔
بھٹو وضیاءڈسکس ہوئے ۔مثلاً ایک سوال دیکھیں۔
سوال:کیا آج مجیب الرحمن شامی یہ حوصلہ کریں گے کہ ڈکٹیٹر ضیاءالحق کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگیں گے؟
جواب:نہیں ۔میں ان کا وزیر نہیں رہا۔
ایک اور سوال دیکھئے ذرا
سوال:ایک انٹرویو میں آپ نے کہا”جب میں کارکن صحافی تھاتو بلا خوف اپنی بات کرتا تھا۔مالکانہ حقوق میسر آتے ہیں تو مختلف حربے اختیار کرنا پڑتے ہیں“یہ حربے کیا ہیں؟
ایک اور سوال: کتنے پمپ ہیں آپ کے پاس؟ جواب :بس ۔ایک وہی
سوال:شہباز شریف نے ساری تجاوزات گرائیں،آپ کا وہ پمپ بھی تجاوزات میں آتا ہے لیکن وہ نہیں گرایا؟
کارکنوں کی تنخواہوں کے علاوہ کئی ایک کاٹ دار سوال کیے گئے
اس کے بعدباری آتی ہے ”ادھر تم ادھر ہم “ کے خالق عباس اطہر رعرف شاہ جی کی ۔
یہاں بھی انٹرویو نگار سفاک نظر آیا ۔
بھٹو،بے نظیر،ضیاءڈسکس ہو ئے۔ایک سوال یہ کیا گیا۔
سوال:بعض لوگ کہتے ہیں آپ کے زیر سرپرستی تاج پورہ میںجواءہوتا ہے؟
اس کے بعد ضیاءشاہد کی باری آتی ہے ۔
پہلا سوال:اخبار شروع کرنے کے لئے آپ کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا؟
ایک اور سوال:ایک عوامی رائے کے مطابق خبریں بلیک میلر اخبار ہے۔اس میں کہاں تک سچائی ہے؟
پھر با ب باندھا ہے ”کالم اور کالم نگاری
یہ مصنف کے ذاتی تجزیے ہیں ۔بڑے بڑے نامی گرامی کالم کاروں کے کالم کی ساخت،خیال اور فنی خوبیوں خامیوں کا بڑی جرات سے ذکر کیا ہے۔
ممکن ہے بہت سے کالم نگارو ںکو پسند نہ آئے ۔جاوید چوہدری خاص طور پر ”رگڑے“ گئے ۔
(راقم کو مصنف کے کالم نگاروں کی تحریروں کے بارے میں مجموعی تاثر سے کافی حد تک اتفاق ہے)
پھرنذیر ناجی کا تفصیلی انٹرویو ہے ۔ایک سوال دیکھئے
سوال:الطاف حسن قریشی،مجیب الرحمان شامی،مصطفی صادق اور عبدالقادر حسن بھی تو ضیاءکے بہت قریب رہے ہیں؟
جواب:یہ چاروں ضیاءالحق کے نور تنوں میں شامل ہیں۔
سوال :آپ نے آج تک کتنے پلاٹ الاٹ کروائے؟
پھر آتے ہیں حسن نثار ۔
یہ بھی ایک کھلا ڈلا انٹرویو ہے ۔سوالات حسب معمول کاٹ دار ہیں ۔حسن نثار کبھی تلملا بھی اٹھتے ہیں مگر ملاقات نگار حوصلہ مند ہے ۔ایک سوال دیکھئے۔
سوال: عام طور پر آپ کے کالم ایسے لگتا ہے نان فوکسڈ ہیں؟
یہ بھی ایک معلوماتی انٹرویو ہے ۔
اس انٹرویومیں ”بے غیرت“،”بے ہودہ“،”گند“،”بے شرم“،”بکواس“،”بھڑوے“،”کتا“،”الو کا پٹھا“ ،”لعنتیوں“ قسم کی تراکیب نادرہ بکثرت ملتی ہیں ۔
پھر اردو اور اگریزی صحافت کے امتیازی پہلووں پر تفصیلی کلام کے بعدپاکستان کے اردو اور انگریزی کے معروف اخبارات کا جائزہ فرداً فرداً لیا گیا ہے ۔آخری باب ہے پاکستانی صوبے،زبانیں اور پرنٹ میڈیا ۔اس میں صوبوں شائع ہونے والے اخبارات اور اب سے جڑے اہم مسائل مذکور ہیں ۔عباس اطہر اور مجید نظامی کے یہ انٹرویوز سن دو ہزار گیارہ میں لئے گئے اب جبکہ یہ کتاب شائع ہوئی ،یہ دونوں حضرات اپنے مالک کے حضور پیش ہو چکے ہیں ۔
میرے خیال میں یہ کتاب پاکستانی پرنٹ صحافت کا ایک اہم حوالہ ہے ۔ہر باخبر صحافی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے ۔توقع ہے کہ صحافت کے سنجیدہ طالب علم بھی اسے نظر انداز نہیں کریں گے ۔انٹرویو نگار دوست تو لازمی پڑھیں۔مصنف کو میرا مشورہ یہ ہے کہ ’’میڈیا منڈی ‘‘ نامی اس کتاب کو سیریز کی صورت میں شائع کریں ۔ابھی بہت کچھ باقی ہے لکھے جانے کو ۔
آخر میں عرض کروں کہ اس کتاب کے مصنف اکمل شہزاد گھمن ہیں ۔جن کے بارے میں میں بس یہی جانتا ہوں ۔محمود الحسن(ایکسپریس لاہور) کا شکریہ کہ ان کی وساطت سے ہمیشہ اچھی کتابیں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔
فرحان فانی
لاہور
اتوار،سترہ مئی دوہزار پندرہ

Saturday 9 May 2015

ادب برائے فروخت؟

ادب برائے فروخت؟

آعمش حسن عسکری
ادب اور فن انسانی جذبات کے اظہار کا سب سے حسین ذریعہ مانے جاتے ہیں۔ ادب کا خمیر اسی دن رکھا گیا جب انسان نے بولنا شروع کیا۔ بولنے سے اظہار کی قوت پیدا ہوئی، لکھائی کی دریافت کے بعد یہی اظہار کی قوت ادب قرار پائی۔ خطہ زمین جہاں آج پاکستان واقع ہے تاریخِ ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ مشہور کتھا ’پنج تنتر‘ جو افسانوی ادب کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اور جسے عربی فارسی اور یہاں تک کہ انگریزی کہانیوں کا ماخذ مانا جاتا ہے یہیں تشکیل پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایسا شاہکار ادب تخلیق ہوا تو اس زمانے میں کوئی سلطنت، حکومت اور طاقت ایسی نہ تھی جو اس کی سرپرستی کرتی۔ وادی سندھ کی کھدائی سے جہاں اس خطہ زمین کی تاریخی اہمیت کے بارے میں اور بہت سے ثبوت فراہم ہوئے ہیں وہیں حیرت انگیز انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ سندھی تہذیب کے کسی گائوں کی باقیات سے کسی محل سرا، بڑی حویلی یا دربار کا سراغ نہیں ملا۔ عظیم الشان محلات اور عمارات کی عدم موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں امرا، رئوسا کا اثر و رسوخ بہت کم تھا۔ سمراٹ اشوک کا دورحکومت اس خطے کا سنہری دور ہے جب ادب اور فنون کی سرکاری سرپرستی کی گئی اور ٹیکسلا کے مقام پر دنیا کی عظیم یونیورسٹی قائم ہوئی جہاں سے پانینی جیسا ماہر زبان سامنے آیا۔ قطب الدین ایبک پہلا مسلمان سلطان ہے جس نے مرکزی حکومت کا ڈھانچہ تشکیل دیا جسے اس کے غلام اور داماد سلطان شمس الدین التمش نے مضبوط بنایا۔ سلطان علوم و فنون کا دلدادہ تھا دہلی کا مدرسہ ناصریہ اور قطب مینار اس کی علم دوستی کا واضح ثبوت ہیں۔ مغل سلطنت کا قیام ادبا اور اہل فن کے لیے ایک عظیم الشان عہد کی نوید لایا۔ ظہیر الدین بابر نہ صرف ایک دلیر مہم جو بلکہ ایک حرف شناس ادیب بھی تھا ، اس کااحوال نامہ’’تزک بابری‘‘ ہندوستانی سماج کا آئینہ مانا جاتا ہے۔تمام مغل بادشاہ ماسوائے اورنگزیب اپنے اردگرد شاعروں، موسیقاروں اور مصوروں کو جمع رکھتے اور ان کے نان و نفقہ کا ذمہ بھی اٹھاتے۔ مغلوں کی علم دوستی اور فنون لطیفہ سے والہانہ وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ جب سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور دربار انگریز کے جمع کردہ مالیے پر چل رہا تھا تب بھی شعرا کو ایک خاص رتبہ حاصل رہا۔ غالب سے عظیم شاعر کو بھی قبول عام کی سند سے قبل دربار تک رسائی حاصل کرنا پڑی۔ 1857ء کے ہنگاموں کے بعد انگریز سرکار نے فارسی زبان و ادب کی بجائے اردو یا ہندوستانی کی سرپرستی کی کلکتے کا فورٹ ولیم کالج اسی کاوش کا حصہ تھا، اسی طرح پنجاب میں گورنمنٹ کالج لاہور اور اورئینٹل کالج قائم کیے گیے۔ علوم و فنون کی سرکاری سرپرستی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما رہے ہیں، حکمرانوں کی ذاتی علم دوستی اپنی جگہ لیکن ادیبوں کی سرپرستی اس لیے بھی کی جاتی رہی ہے تاکہ کہیں ادیب کی زبان یا قلم سے کچھ ایسا نہ نکل جائے جس سے حکمران طبقے کی اجارہ داری کو خطرہ لاحق ہو، کہیں ریاست گریز جذبات عام آدمی تک نہ پہنچ جائیں اور کہیں اس کے دل میں شاہ کی عزت و ہیبت کم نہ ہو جائے۔لہٰذا ان لوگوں کو چپ کرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کے سر پر دست شفقت رکھا جائے تاکہ ان کا قلم چین لکھتا رہے اور اگر کہیں کوئی سرمد پیدا ہوجائے تو اس کا پتہ صاف کردیاجائے۔ سلطنتیں تباہ ہونے کے لیے ہی بنتی ہیں آج نہ دہلی دربار ہے کہ جہاں خسرو عرق ریزی کرے اور طوطی ہند کا خطاب پائے اورنہ قطب شاہی حکمران ہیں کہ موسیقی کے نورس ترتیب دیے جائیں، آج نہ شاہجہاں ہے جو فن تعمیر کا ذوق رکھتا ہو اور نہ ہی شاہ بہادر ظفر ہے جو غالب کو اپنے پہلو میں بٹھائے۔ تو کیا فنون مردہ ہوگئے؟ کیا ان کی پشتی بانی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا؟ نہیں آج بھی کئی سلطنتیں قائم ہیں جو ان کی سرپرستی کیے جارہی ہیں اور جن کی بدولت آج کے ادیب اپنے ملی و شخصی اختلاف بھلا کر ایک چھت کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ وہ طبقہ جو ان سلطنتوں پر قابض ہے اور فنکاروں کی علم بازی سے مستفید بھی ہوتا ہے ان فنکاروں کی سرپرستی کے لیے آئے روز میلے اور تہوار منعقد کرتارہتاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت معاشی مفادات کے حصول کے لیے آج کا فنکارمزاحمت اور انکار کی روایت کو فراموش کرچکا ہے۔ لیکن یہ سلطنتیں کیا ہیں؟ یہ چند سرمایہ داروں کے جھنڈ ہیں جو ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر اپنے ہی ساتھ گفتگو کیے جاتے ہیں اور ان کی اپنی ہی آوازیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک بے معنی بازگشت پیدا کرتی ہیں۔ عوام الناس کی حالت سے انہیں کیا سروکار یہ تو زبان بھی وہی بولتے ہیں جو اکثریت کے کانوں کے لیے غیر مانوس ہے۔ بات سادہ سی ہے فنون سرپرستی مانگتے ہیں۔ اب دلّی دربار، عادل شاہی اور نظام حیدر آباد کہاں‘ اب تو ادیب اور فنکارصرف اسی کو مانا جاتا ہے جو سلطنت اور اس کے کارندوں کو خوش کرے، وہ قلم آج بھی سرپرستی سے محروم ہے جو ’’سلاطین’’ کی کاسہ لیسی نہ کرسکے۔ (بشکریہ: لالٹین ڈاٹ آرگ)
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2015-05-09/12905#.VU5tEo5Vh8M

کیا لکھنا ’سیکھا‘ جا سکتا ہے؟

کیا لکھنا ’سیکھا‘ جا سکتا ہے؟

جرمنی کے شہر لائپزگ میں قائم ’لائپزگ لٹریچر انسٹیٹیوٹ‘ ایک ایسی درس گاہ ہے جہاں تصنیفی تخلیقات کا فن سکھایا جاتا ہے۔ عام لفظوں میں یہاں لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ مگر کیا کسی کو لکھنا سکھایا جا سکتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ادیب پیدا ہوتا ہے۔ مگر کیا واقعی؟
کیا لکھنا سکھایا جا سکتا ہے؟ مگر شیکسپیئر کو کس نے لکھنا سکھایا تھا؟ غالب نے کس کری ایٹو رائٹنگ کی درس گاہ سے شعر کہنا سیکھا تھا؟ جدید مغربی ادب کے موقر نام جیسے کہ فرانس کافکا، ژاں پال سارت، کامو، ژاں جنے، مارکیز اور ملان کنڈیرا کیا درس گاہوں سے تیاّر ہو کر آئے تھے؟ کیا منشی پریم چند، کرشن چندر اور منٹو نے افسانے لکھنے کی تکنیک باقاعدہ کسی اسکول سے سیکھی تھی۔ کیا جون ایلیاء نے امروہے کے کسی اسکول میں بحرِ رجز پر عبور حاصل کیا تھا؟ جواب یقیناً نفی میں ہے۔
عہدِ حاضر کے ایک بڑے ادیب گنٹر گراس جن کا تعلق جرمنی سے ہے
مگر کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لکھنا سیکھنا ہی نہیں چاہیے؟ آرٹ سیکھا نہیں جا سکتا مگر کرافٹ تو سیکھی جا سکتی ہے۔ اور اگر تخلیقی ادب آج کی دنیا میں ایک سائنس کی حیثیت اختیار کر گیا ہے تو اسکولوں سے لے کر یونیورسیٹوں تک اس کو سکھایا جانا بھی ضروری ہے۔
جدید ’کری ایٹو رائٹنگ اسکولز‘ گو کہ امریکی ایجاد ہیں مگر یورپ میں بھی خاصے عرصے سے ان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہاں سے اعلیٰ درجے کے مصنّف تیّار ہو کر نکلتے بھی ہیں۔
جرمنی کے مشرقی شہر لائپزگ میں ایسا ہی ایک انسٹیٹیوٹ منقسم جرمنی کے زمانے سے کام کررہا ہے۔ ’لائپزگ لٹریچر انسٹیٹیوٹ‘ میں چنندہ نوجوانوں کو داخلہ دیا جاتا ہے اور ان کو مصنّف بنانے کے لیے تمام تر تخلیقی اور سائنسی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا ادیبوں کا خاندان ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں بھی غیر رسمی طریقے سے بعض نوجوان گھروں سے اور اپنے سینئیر دوستوں اور احباب سے لکھنا پڑنا سیکھ کر غیر معمولی ادیب بن جاتے ہیں۔ سو لائپزگ کے اس انسٹیٹیوٹ میں بھی ماحول کچھ ایسا ہی ہے۔
اس انسٹیٹیوٹ سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک طالبِ علم، کلاؤڈیئس نائٹسن اب ناشر بن چکے ہیں۔ ان کا اس انسٹیوٹ کی افادیت کے بارے میں کہنا ہے کہ ڈگری کا تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا تاہم یہ ادارہ آپ کو مصنّف بنا کر نکالتا ضرور ہے: ’مینیجر بننے سے پہلے میں یہاں ایک طالبِ علم تھا۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب ہمارے استاد نے ہمیں پہلے دن بتایا تھا کہ اس ڈگری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور میرے خیال میں ان کی بات میں کافی حد تک صداقت تھی۔ تخلیق کار کے طور پر آپ اس ڈگری کا کیا کریں گے؟ یہاں صرف تجربہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہاں جو بھی آتا ہے وہ مصنّف بن کر نہیں نکلتا‘
اس انسٹیٹیوٹ ک ایک طالبِ علم، یورن ڈیگے، یہاں اپنی تخلیقی سرگرمریوں کا احاطہ کچھ یوں کرتے ہیں: ’’ابھی تک میری کوئی کتاب نہیں چھپی ہے۔ مجھے ابھی تک اپنے کام کو لوگوں کے سامنے پڑھنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا۔ اس معاملے میں میں ابھی ناتجربہ کار ہوں‘‘
مگر وہ دن دور نہیں کہ ڈیگے یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر اپنی کتابیں چھپوا بھی سکیں گے اور ان کو اپنی تحریروں کے ابلاغ کا بھی موقع ملے گا۔
کلاؤڈیئس نائٹسن ناشر ہونے کی حیثیت سے ایسے ہی مصنّفوں کی کتابوں کی نمائش بھی کرتے ہیں: ’اس ادارے میں یولی سیہ، کلیمنس مائیر اور ٹوبیاس ہولسوٹ کی طرح کے مصنفّوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ہمارے یہاں ایک بک شیلف ہے جو اب کتابوں سے بھر چکا ہے۔ اس میں اضافے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس دوران بہت سی نئی کتابں مارکیٹ میں آچکی ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے‘
اس ادارے میں نہ صرف یہ کہ داخلے کا معیار بہت بلند ہے بلکہ یہاں سے سند لے کر نکلنا بھی آسان نہیں ہے۔ جرمنی اپنے ادیبوں اور لکھنے والوں کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ ’لائپزگ لٹریچر انسٹیٹیوٹ‘ گنٹر گراس پیدا کرنے کا دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن اس کا یہ دعویٰ ضرور ہے کہ اگر کسی میں گنٹر گرلاس بننے کی صلاحیت ہے تو وہ اس کو نکھار ضرور سکتا ہے اور ان کو وہ مواقع بھی فراہم کرسکتا ہے جو گراس کو حاصل نہیں تھے جیسا کہ کتابیں چھپوانے کے لیے ادبی ایجنٹوں تک رسائی وغیرہ۔
بشکریہ
http://www.dw.de/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A7-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%DA%BE%D8%A7-%D8%AC%D8%A7-%D8%B3%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%DB%81%DB%92/a-4157327

Friday 8 May 2015

خود کومطالعے کا عادی بنائیے


 خود کومطالعے کا عادی بنائیے
چند تجاویز ۔ ۔ ۔

فرحان فانی 

مطالعہ انسان کی فکری نشوونما کے لئے مستقل غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔فوٹو: فائل
ہمارے ہاں بیشتر لوگ کتاب کی اہمیت اور افادیت تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود خود کو کتاب پڑھنے پر آمادہ کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
موبائل فونز اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے بھی ہمارے معاشرے میں مطالعے کی روایت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ کتاب پڑھنا انہیں بوریت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی صحت مند رجحان نہیں۔ لوگوں میں مطالعے کا فقدان ایک عام مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔اس کااندازہ ہمیں روزمرہ زندگی میں لوگوں کی گفتگو کے موضوعات اور ان کی آراء کی سطحیت دیکھ کر ہوتا ہے۔ مطالعہ انسان کی فکری نشوونما کے لئے مستقل غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ ہماری شخصیت میں نکھارکے ساتھ ساتھ ہمارے سماجی تعلقات میں بھی خوشگوار تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ آج جب کتاب کلچر کے فروغ کی بات کی جاتی ہے تو اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ مطالعے کی عادت کیسے ڈالی جائے؟ سب سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مطالعہ ایک دلچسپ سرگرمی ہے، جو آپ سے بہت کم لے کر بدلے میںآپ کو بہت کچھ دیتی ہے۔ مطالعے کی عادت کو بہتر بنانے کے لئے یہ تراکیب بروئے کار لائی جا سکتی ہیں۔
وقت مقرر کیجئے:مطالعے کی عادت ڈالنے کے لئے روز مختلف اوقات میں مختصر وقت کے لئے مثلاً دس منٹ کے لئے مطالعہ ضرور کریں۔ یہ وقت ناشتے، دوپہر کے کھانے کے بعد یا پھر رات کو سونے سے پہلے کا ہو سکتا ہے۔ اس طرح اگر آپ دن میں فارغ ملنے والے چھوٹے چھوٹے چھوٹے وقفو ں کو استعمال میں لائیں گے تو یہ ایک اچھی شروعات ہو سکتی ہے۔ شروع میں زیادہ دورانیہ اکتاہٹ کا سبب بن سکتا ہے ۔
ہمیشہ کتاب ساتھ رکھیے: گھر سے نکلتے ہو ئے کتاب ساتھ رکھنا کبھی نہ بھولیے۔آپ کی گاڑی، دفتر،کام کی جگہ غرض کتاب ہر جگہ آپ کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بہت مرتبہ آپ کو کسی سے ملاقات کیلئے یا کسی اور کام کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ یہ وقت کتاب کے ساتھ گزار کر اپنے فارغ وقت کو مفید بنا سکتے ہیں۔ مطالعے کے شوقین لوگ اکثر ریلوے اسٹیشن، ایئر پورٹ وغیر ہ کی انتظار گاہوں میں کتابوں میں غرق نظر آتے ہیں۔
فہرست بنائیے: اچھی کتابو ں کی فہرست مرتب کیجیے۔ مطالعے کے شوقین لوگوں سے اچھی کتابوں کے بارے میں پوچھیے۔ اپنی ذاتی ڈائری میں اہم اور قابل مطالعہ کتابوں کے نام درج کریں اور وقتاً فوقتاً اس فہرست میں اضافہ بھی کریں۔ پھر ان کتابوں کا باری باری مطالعہ کریں۔کتاب مکمل ہونے کے بعد اسے نشان زد کریں۔ خیال رہے کہ مطالعے کے دوران اہم جگہوں کے نوٹس لینا بہت مفید رہتا ہے۔ یہ بعد میں حوالے تلاش کرنے میں آپ کی مددکر سکتا ہے۔
پرسکون جگہ تلاش کیجیے: مطالعے کی عادت پختہ کرنے کے لئے ضروری ہے کی کسی ایسی پر سکون جگہ بیٹھا جائے جہاں موسیقی یا دیگر آوازیں آپ کے ارتکاز کو متاثر نہ کر سکیں۔اس کے علاوہ بیٹھ کر پڑھنازیادہ بہتر ہے۔گھر میں کوئی ایک کمرہ یا پھر لائبریری کا ماحول اس حوالے سے بہترین ہو سکتا ہے۔
انٹر نیٹ اور ٹی وی کا محدود استعمال: اس مشورے پر عمل آ ج کل یقیناً آسان نہیں لیکن اگر آپ مفید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو مطالعے کے مقررہ اوقات میں ٹی وی یا دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے گریز کرنا ہو گا۔ یہ چیزیں بار بار آپ کی توجہ کو متاثر کر کے مطالعے کا تسلسل توڑ دیتی ہیں۔
اپنے بچوں کی کتابیں بھی پڑھیے: اگر آپ صاحب اولادہیں تو بچوں کے لئے اچھی کتابیں لائیے۔انھیں مطالعے کی عادت ڈالئے اور ساتھ ہی ساتھ خود بھی ان کتابوں کو پڑھئے۔اس طرح ایک طرف تو بچوں میں مطالعے کا ذوق پروان چڑھے گا جبکہ دوسری جانب آپ کی مطالعے کی عادت بھی مزید بہتر ہو گی۔ بچوں کے لئے لکھی گئی مشہور اور اچھی کتابوں کا انتخاب کیجیے۔ ان کے مطالعے کے لیے اخلاقی اور سبق آموز کہانیاں کی فہرست ضرور بنائیے۔
بُک شاپس کا رخ کریں:کبھی آپ کوفرصت کے لمحات میسر ہوں تو کتب خانوں پر ضرور وقت گزاریے۔ وہاں آپ کی ملاقات مطالعے شوقین لوگوں سے بھی ہو سکتی ہے جو آپ کو اچھا مشورہ دیں گے۔اس کے علاوہ کتابیں الٹتے پلٹتے ہوئے شاید آپ کے ذوق کی دو چار کتابیں سامنے آ ہی جائیں۔
لائبریری ضرور جائیں: ہمارے ہاں لائبریریاں اب سنسان پڑی رہتی ہیں۔ مطالعے کی عادت پر کام کرنے والے لوگوں کے لئے بہتر ہے کہ ہفتے میں ایک دن لائبریری کے لئے مقرر کریں۔ نئی پرانی کتابوں سے خود کو متعارف کرائیں۔ شروع میںوہاں جم کر بیٹھنا مشکل ہو گا مگر آہستہ آہستہ آپ کو لائبریری میں وقت گزارنے میں لطف آنے لگے گا۔
خوش دلی سے پڑھئے: مطالعہ خوش دلی سے کیجیے۔ اچھے ستھرے ماحول کے ساتھ کچھ چائے، کافی یا پھر اپنے ذوق کی کوئی چیز بھی ساتھ رکھئے۔ صبح اور شام کے اوقات مطالعے کا بہت لطف دیتے ہیں۔اگر قدرتی ماحول مثلاً باغیچہ وغیرہ میسر ہو تو مطالعے کا عمل مزید دلچسپ ہو جاتا ہے۔
اپنابلاگ بنائیے: آج کل انٹر نیٹ نے مفت بلاگ بنانے کی سہولت دے رکھی ہے۔آپ اپنا بلاگ بنائیے اور کتاب پڑھنے کے بعد اُس کے دلچسپ پہلووں کو اپنے بلاگ کی زینت بنائیے۔ دوستوں سے بھی اپنا بلاگ شیئر کیجیے۔کتاب کے متعلق پوچھے گئے سوالات اور دوسرے لوگوں کی اس کتاب کی بابت رائے غور سے سنیے۔آپ کے ارد گرد موجود لوگ اس قسم کی مزید کتابوں سے آپ کومتعارف کروائیں گے۔ یہ عمل آپ کی لکھنے کی صلاحیت میں بھی بہتری لا سکتا ہے۔کتاب سے متعلق اپنی رائے فیس بک وغیرہ پر بھی دوستوں سے شیئر کیجیے۔
مقصد بڑا رکھئے: مطالعے کی عادت ڈالنے کے لئے آپ کو عزم کرنا ہو گا۔ مثلا ً اس سال میں پچاس کتابیں پڑھوں گا۔ ہر ماہ چار سے پانچ کتابیں مکمل کروں گا۔ پھر پوری دلچسپی اور لگن سے اپنے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچا ئیے۔ خیال رہے کہ اس مقصد کے لئے اپنی روز مرہ اہم سرگرمیوں کو متاثر کئے بغیر وقت نکالا جا سکتا ہے۔ بس ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔
کوئی موضوع لیجیے: آپ کے سامنے ادب، مذہب ، سائنس، سماجیات سے متعلق بے شمار موضوعات بکھرے پڑے ہیں۔ اپنی پسند کا موضوع منتخب کیجیے اور اس حوالے سے مطالعے کے شوقین افراد سے مشورہ کریں۔ اہم کتابوں کے نام نوٹ کر کے ان کی جستجو شروع کر دیجیے۔ مثلاًاگر آپ کی دلچسپی افسانوں میں ہے تو اب تک لکھے گئے اہم افسانوں کی فہرست بنا کر یکے بعد دیگرے ان کا مطالعہ کریں۔ چند ہی مہینوں میں آپ افسانوں پر مدلل اور مضبوط گفتگو کے قابل ہو جانے کے علاوہ خود میں ایک عجیب قسم کی خود اعتمادی محسوس کریں گے ۔
تجزیہ کیجیے: ہر کتاب کے مطالعے کی تکمیل پر اپنی معلومات کا تجزیہ کیجیے۔ یہ دیکھئے کہ اس کتاب نے کس انداز میں آپ کو متاثر کیا۔آپ کی معلومات میں کیا اضافہ کیا۔ یہ عمل آپ کو مزید پڑھنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت دے گا۔ یہ چند بنیادی نکتے ہیں جنہیں کام میں لا کر آپ زندگی بھر کے لئے ایک ایسی مسرت بخش دنیا سے روشناس ہوں گے جو آپ کو سکون، اعتماد اور بصیرت سے ہمکنار کرے گی۔

سیلفی سیلفی کھیلتا سوشل میڈیا


سیلفی سیلفی کھیلتا سوشل میڈیا

فرحان فانی 


سیلفی لے کر پوسٹ کرنا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی مقبول عام تفریح بن چکی ہے فوٹو: فائل
اسمارٹ فونز اب ہم سب کی دسترس میں ہیں۔تصویر بنوانے فوٹو اسٹوڈیو جانے کی روایت دم توڑ رہی ہے کیونکہ ہمارے اسمارٹ فون کا کیمرا اب ہمیں یہ خدمات فراہم کر رہا ہے۔
حالیہ چند برسوں میں اپنی تصویر بنانے کا رواج بہت زور پکڑ چکا ہے ۔دفاتر،تعلیم گاہوں، پارکوں،تفریحی مقامات اور پارٹیوں میں اب  لوگ موبائل فون سے اکثر اپنی تصویریں بناتے نظر آتے ہیں۔اپنی تصویر یا سیلفی لے کر پوسٹ کرنا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی مقبول عام تفریح بن چکی ہے ،لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ غیر محسوس طریقے سے نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے۔
پوری دنیا بالخصوص امریکا اور یورپ میں ماہرین نفسیات اور کلینیکل سائیکالوجی سے متعلق افراد سیلفی کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا رہے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ وہ مریض ہیں جنہیں سیلفیوں کے جنون نے ذہنی صحت کی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اس پہلو پر بات کرنے سے قبل ذرا سیلفی کے تصور کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں۔
جی ہاں!سیلفی سے مراد کسی بھی شخص کی ایسی تصویر جو وہ خود لیتا ہے۔یہ تصویر عام طور پر اسمارٹ فون یا ویب کیم کے ذریعے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کی غرض سے بنائی جاتی ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری نے لفظ ’’Selfie‘‘ کو 2013ء میں ’’Word of the year‘‘ قرار دیا۔عام خیال یہ ہے کہ سیلفی ابھی آج کل کی بات ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ۔ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے پر سولہویں صدی کی دوسری دہائی میں سیلفی کی ابتدائی شکل کا ذکر ملتا ہے۔ذاتی پورٹریٹس کا تصور فوٹو گرافی کے جدید آلات کی ایجاد سے بہت پہلے کا ہے۔
یونیورسٹی آف کولمبو کی اکتوبر 2014ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سیلفی کی سب سے پہلی شکل اس پورٹریٹ کو قرار دیا گیا جو1524ء میں ایک اطالوی آرٹسٹ پار مگیانینو (Parmigianino) نے بنائی تھی اور اسے ’’مجوف آئینے میں بنائی گئی ذاتی پورٹریٹ‘‘(Self portrait in Convex Mirror )کا نام دیا تھا۔اور پہلا باقاعدہ فوٹو گراف جسے سیلفی کہا گیا وہ تصویر تھی جو فلاڈلفیا کے شوقیہ فوٹو گرافررابرٹ کارنیلئیس نے 1839ء میں اپنی بنائی تھی۔وہ کیمرے کے عدسوں کا کور اتارنے کے بعد دوڑ کر فریم میں آیا اور اپنی تصویر بنا لی۔اور تصویر کی پشت پر یہ یاد گار الفاظ لکھے ’’The first light Picture ever taken. 1839‘‘۔
پھر 1900  میں ایک تیرہ سالہ روسی لڑکی اناستاسیانکولاوینا نے آئینے کی مدد سے اپنی تصویر خودلے کر اپنے دوست کو بھیجی اور ساتھ لکھا کہ ’’میں نے اپنی یہ تصویر شیشے کی جانب دیکھتے ہوئے بنائی ہے۔یہ بہت مشکل کام تھا کیونکہ میرے ہاتھ مسلسل کانپ رہے تھے‘‘۔یہ تو تھیں دُور پیچھے کی باتیں،لیکن ماضی قریب میںسیلفی سال 2002ء میںایک آسٹریلین انٹر نیٹ فورم پر زیر بحث آئی۔سیلفی کے متعلق گفت و شنید میں تیزی سال2005ء کے بعد آئی کیونکہ یہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک ،انسٹا گرام وغیرہ کی مقبولیت کا زمانہ تھا۔اس کے بعد تصویر کشی کا یہ طریقہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا۔
سال 2012ء کے اخیر میں ٹائم میگزین نے لفظ سیلفی کو  “top 10 buzz words”میں شمار کیا۔2012ء کے ایک سروے کے مطابق آسٹریلیا کی 18 سے 35سال کی عمر کی دو تہائی خواتین سیلفیاں لیتی ہیں۔ جن کا مقصد  عام طورفیس بک پر پوسٹ کرنا ہوتا ہے۔سام سنگ کی جانب سے ایک مہم کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 18 سے 24 سال کے درمیان عمر کے افرادکی کل تصاویر کا تقریباً تیس فی صد سیلفیز پر مشتمل ہوتا ہے ۔سیلفی کلچر اب زمین تک محدود نہیں رہا۔ جدید دور کاانسان اسے زمین کی حدوں سے نکال کر دور خلاؤں میں بھی لے پہنچا۔ جی ہاں!پہلی خلائی سیلفی ایک خلاء نورد بزّ الڈرین( Buzz Aldrin)نے 1996ء میںجمنی 12مشن (Gemni 12 mission)  کے دوران لی تھی۔
سیلفی اب صرف سیلفی یعنی صرف ایک شخص کی تصویر نہیں رہی بلکہ گروپ سیلفیاں بھی آج کل کی معروف چیز ہیں ۔لوگ مختلف تقاریب،پارٹیوں اور مخصوص دنوں میں اکٹھی سیلفیاں لیتے ہیں۔ اس گروپ سیلفی کو اب ”Usie”بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مشہور شخصیات اداکار،گلوکار،ٹی وی پر تفریحی پروگرام کرنے والے لوگ،کھلاڑی، سیاست دان غرض مذہبی رہنما بھی اب سیلفی کلچر کا حصہ ہیں۔امریکی صدر باراک اوباما دسمبر 2013ء میں نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات میں شرکت کے دوران ایک سیلفی ٹیکر کے طور پر رپورٹ کئے گئے۔ان کی لی ہوئی سیلفی اوباما سیلفی کے نام سے مشہور ہوئی اور مختلف حلقوں میں گپ شپ کا موضوع بنی۔اس کے بعد سیلفی کے عنوان سے کچھ میوزک ویڈیوز بھی بنیں۔
جنوری2014ء میں ایک امریکن DJ Due’’دی چین سموکر‘‘ نے میوزک ویڈیو ”Selfie”بنائی۔فروری2014ء میں نینا نسبٹ) (Nina Nesbittنے ایک اور میوزک ویڈیو بنائی ,جو ABCٹیلی وژن نیٹ ورک پر selfieکے نام سے چلی ۔یہ ویڈیوایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت چاہتی ہے۔اس کے علاوہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں بھی یہ باتیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ وہ بھی سیلفی لینے کا ذوق رکھتے ہیں۔ادھر ہمارے بلاول بھٹو زرداری بھی بارہا جلسوں میں سیلفیاں لیتے پائے گئے۔
اب آتے ہیں سیلفی کلچر کے دوسرے پہلو کی جانب۔ نفسیاتی بیماریوں کے ماہرین نے شواہد کی بنا پر سیلفی کی عادت کے شکار افراد کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سائیکالوجسٹ جل ویبر(Jill Weber) کا کہنا ہے کہ یہاں خطرہ ہے اس بات کا کہ آپ کی خود اعتمادی یا (self esteem)اپنی سیلفی پر ملنے والے تبصروں اور لائیکس کے ساتھ جڑ جائے گی۔اور اس کی بنیاد آپ کی حقیقی شخصیت کی بجائے آپ کا ظاہری سراپا(یعنی آپ کیسا دِکھ رہے ہیں) ہوگا۔ڈاکٹر ویبر کا مزید کہنا ہے کہ ’’میرے تجربے کے مطابق جو لڑکیاں بار بار سیلفیاں پوسٹ کرتی ہیں وہ درحقیقت اپنی زوال پذیر خود اعتمادی کے ساتھ برسر پیکار ہوتی ہیں‘‘۔
امریکن اکیڈمی آف فیشل پلاسٹک اینڈ ری کنسٹرکٹو سرجری کے ایک سروے کے مطابق نوجوانوں میں پلاسٹک سرجری کروانے کی خواہش کے پیچھے سیلفیوں کا بہت کردار ہے۔اس سروے میں ایک آرگنائزیشن کے 2700 افراد کو منتخب کر کے ان کا جائزہ لیا گیا۔جس سے پتہ چلا کہ لوگوں کا سیلفیوں میں پرفیکٹ دکھائی دینے کا جنون سرجری کے کاروبار کو وسعت دے رہا ہے ۔اور یہ بھی ایک حیرت ناک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال لوگوں میں اپنے جسم کی بابت عدم اطمینان کو فروغ دے رہا ہے۔
2011ء میں یونیورسٹی آف ہائفا میں 12 سے 19 سال کی 248لڑکیوں پر ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لڑکیاں زیادہ فیس بک استعمال کرتی ہیں۔وہ بلیمیا(Bulmia) (کھانے پینے میں بے اعتدالی)، ایناریکسیا (Anorexia) (بھوک کی کمی اور عدم اشتہا جو دُبلے پن کا باعث بنتی ہے)اور اپنے بارے میں منفی تأثر( Negative self-image) سمیت مختلف مسائل کا شکار رہتی ہیں۔وہ اپنے آپ کو وزن گھٹانے کی طرف بہت مائل خیال کرتی ہیں۔دوسری بات یہ کہ لوگ سیلفی کلچر کے نتیجے میں اپنی ذات کا اِرد گرد کے افراد اور فیس بک کے دوستوں سے موازنہ کرتے ہیں جو کہ کسی طور صحت مند عادت نہیں ہے۔
2013ء کی ایک تحقیق کے مطابق فیس بک کا مستقل استعمال کرنے والے اور سیلفیاں پوسٹ کرنے کے عادی  افراد سوشل سپورٹ کی کمی کا شکار ہوتے ہیں،وہ اپنے فیس بک دوستوں کے نسبتاً زیادہ قریب ہوتے ہیں۔مطالعے کا کہنا ہے کہ یہ عادت ان کے حقیقی رشتوں اور سماجی تعلقات کوبری طرح متاثر کر سکتی ہے۔سیلفیوں کی ایک اور قسم’’ سیلفی اولمپکس ‘‘یا ’’ٹرِک شُوٹ سیلفی‘‘ ہے ۔یہ غیر معمولی اور پرخطر حالات میں لی جاتی ہے۔2014ء کے شروع میں اس طرح کی سیلفیوں کے رجحان نے ٹویٹر پر زور پکڑا۔
یہ سیلفیاں کم عمروں اور نوجوانوں کوکرتب بازی( stunts)کی طرف راغب کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔وہ ایسی سیلفی جو سب کو حیرت میں ڈال دے،بنانے کے لئے جان لیوا حرکتیں کرنے سے باز نہیں رہتے۔فروری 2014ء میں ہانک کانک میرا تھن کے ذمہ داروں نے دوڑ کے دوران سیلفی لینے پر پابندی لگائی۔اس کا سبب 2013ء میراتھن میں پیش آنے والے وہ حادثات تھے جو لوگوں کو دوڑ کے دوران سیلفیاں بنانے کے باعث پیش آئے۔
ملائشیا میں تھائی فیشل ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے سیلفی کلچر کو دماغی صحت کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ڈیپارٹمنٹ کی ڈپٹی ڈائریکٹر پان پیمول ویپلاکورن( Panpimol wipulakorn)کا کہنا ہے کہ سیلفی پر لائیکس تو ملتے ہیں لیکن کوئی شخص کم لائیکس سے خوش ہوجاتا ہے جبکہ بہت سے سیلفیوں کے جنون میں مبتلا لوگ زیادہ لائیکس کے متلاشی بن کر زیادہ پسند کئے جانے (Being liked)کی لت(Addiction ( میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اگر انھیں اپنی مرضی کے مطابق رد عمل نہ ملے تووہ اپنی خو د اعتمادی کی دولت کھو بیٹھتے ہیں اور خود سے خطرناک حد تک غیر مطمئن ہو جاتے ہیں جو کہ درست رجحان نہیں ہے۔کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر انجلی چابریا ( Dr Anjali Chhabria)کے مطابق لوگ سیلفیوں میں خود کو ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ وہ حقیقت میں ہوتے نہیں۔سو یہ درحقیقت ’’غلط تصویر‘‘(False- Image)ہے جو ذہنی بیماری کا شاخسانہ ہے۔
ان سب خدشات کا اظہار سیلفی کی عادت کے شکار افراد کا جائزہ لینے کے بعد کیا گیا۔سیلفی لینے کا شوق بعض اوقات خطرے میں بھی ڈال سکتا ہے۔جولائی 2014 ء میں فلپائن میں ایک چودہ سالہ لڑکی اپنے دوست کے ساتھ اسکول کے ایک بلند زینے پر اپنی سیلفی لیتے ہوئے گر پڑی اور جان کی بازی ہار گئی۔اسی طرح اگست 2015 ء میں ایک پندرہ سالہ لڑکے نے خود کو بری طرح زخمی کر لیا جبکہ وہ ایک بندوق اپنی ٹھوڑی سے لگا کر دوسرے ہاتھ سے سیلفی لے رہا تھا۔اسی طرح کا ایک واقعہ نومبر 2014 ء میں ایک پولستاتی عورت کے ساتھ پیش آیا، جو سپین میں چھٹیاں منا رہی تھی۔
اس نے ایک پل پر مشکل سیلفی لینے کی کوشش کی جس نے اس کی جان کا خاتمہ کر دیا۔ایسے بہت سے افراد بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے اپنی دانست میں بہترین سیلفی لینے کی گھنٹوں کوشش کی ۔مگر مطلوبہ معیار کی سیلفی نہ بنا سکنے کی وجہ سے انہوں نے تنگ آ کر خود کشی کی کوشش کی۔اس کی مثال ہمارے سامنے مرر نیوز کی رپورٹ کردہ ایک خبر ہے جس کے مطابق ایک 19سالہ ڈینی بو مین(Danny Bowman ) نامی ایک برطانوی نوجوان ہے جو پندرہ سال کی عمر ہی سے سیلفی ایڈکشن کا شکار تھا۔یہ عادت اس کے اسکول چھوڑنے کا باعث بھی بنی۔
پھر اس نے ایک دن میں دو سو سے زائد مرتبہ اپنی تصاویر بنا ئیں ۔لیکن وہ سیلفی میں نظر آنے والے اپنے سراپے سے مطمئن نہیں تھا۔پھر بالآخراس نے خود کشی کی کوشش کی۔مذکورہ نوجوان کا علاج کرنے والے نفسیاتی معالج ڈاکٹر ڈیوڈ ویل(Dr. David Veale) کا کہنا ہے کہ ’’ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے ۔یہ ذہنی صحت کے لئے اتنا زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کہ انسان کوخودکشی کے اقدام تک لے جاتا ہے۔ڈاکٹر ڈیوڈنے ضرورت سے زیادہ اپنی تصاویر لینے کو ایڈکشن کے بجائے Body Dysmorphic Disorder (BDD) قرار دیا ہے اور بعض ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ سیلفیاں لینے کا رجحان شخصیت میں عدم اعتماد کی علامت ہے۔
ا ب سوال یہ ہے کہ سیلفی کی لت سے چھٹکارہ کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے؟یہاں یہ خیال رہے کہ کبھی کبھارضرورت یا پھر تفریح کے طور پر سیلفی لینے میں کوئی حرج نہیں۔بات خطرے کی حدود میں اس وقت داخل ہوتی ہے جب کوئی شخص سیلفی لینے کو عادت بنا کر اپنا وقت اور ذہنی صحت برباد کرنے لگتا ہے۔سیلفی ایڈکشن کابہترین متبادل دلچسپی کے موضوعات کی کتب کا مطالعہ ہے۔
اس کے علاوہ جسم کو متحرک رکھنے والے کھیل ،دوستوں، رشتہ داروں اور دیگر متعلق افرادسے ملاقات اور گپ شپ میں خود کو مصروف رکھنا بھی سیلفی لینے کی عادت سے بچا سکتا ہے۔یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے آپ کیسا نظر آ رہے ہیں یہ اہم ضرور ہے مگر اس سے بڑھ کر اہم آپ کی اصل شخصیت اور ذاتی مہارتیں ہیں۔اپنے کام کو وقت دیجیے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ دیجیے ۔اس طرح آپ اپنی ذات کے حوالے سے کافی حد تک مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں۔
دائیں جانب 1524ء میں پارمگیانینو کا بنایا ہوا پہلا سیلفی پورٹریٹ، درمیان میں 1839ء میں رابرٹ کارنیلئس کا بنایا گیا فوٹو گراف جسے پہلی فوٹو گرافک سیلفی قرا ر دیا گیا جبکہ دوسر ی جانب ’’کوڈیک برونائی باکس کیمرا‘‘ کی مدد سے1900ء میں ایک تیرہ سالہ روسی لڑکی اناستاسیا نکولاوینا کی آئینے کی مدد سے خود بنائی گئی تصویر ہے۔
سیلفی بنانے کی چھڑی
سیلفی سٹک ایک لاٹھی نما مونو پوڈ ہے جو سیلفی بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اس کے ایک کنارے پر دستہ جبکہ دوسرے کنارے پر کیمرا یا موبائل فون فٹ کرنے کی جگہ ہوتی ہے۔کچھ سیلفی چھڑیاں ریموٹ سے کنٹرول ہوتی ہیں اور کچھ میں بلیو ٹوٹھ کنٹرول سسٹم ہوتا ہے۔ سال 2014ء میں جنو بی کوریا کی حکومت نے ان سیلفی سٹکس کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والوں پر 70 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹائم میگزین نے سیلفی سٹک کو سال 2014ء کی بہترین ایجادات میں شمار کیا ہے ۔
باڈی ڈائس مارفک ڈِس آرڈر(BDD) کیا ہے؟
ڈائسمارفیا یاڈائسمارفک سینڈروم ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جس میں متاثرہ شخص اپنی ظاہری ہیئت کے بارے میں بہت پریشان رہتا ہے۔یہ سیلفی ایڈکش میں مبتلا ایک برطانوی نوجوان جس نے بالآخر تنگ آ کر اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی،کے حوالے سے ڈاکٹروں نے تشخیص کی تھی ۔انہوں نے سیلفی ایڈکشن کو کنٹرول نہ کرنے کی صورت میں اسے دیگر منشیات اور الکوحل وغیرہ کی طرح خطرناک قرار دیا۔
جن افراد میں اس بیماری کی تشخیص کی گئی ان میں سے اکثر ایک دن میں اوسطاً تین گھنٹے ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے پائے گئے جو وہ خود میں سمجھتے تھے ۔حالانکہ یہ محض ان کا وہم تھا۔حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔یہ بیماری مرداور عورتوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ایک سے دو فی صد لوگ عموماً اس بیماری کا شکار رہتے ہیں۔اس کے علاج کے لئے کوگنیٹو بی ہیویئر تھراپی(CBT) کو موزوں خیال کیا جاتا ہے۔

چلو انسان بنتے ہیں

چلو انسان بنتے ہیں

فرحان فانی


آج صبح تڑکے مجھے ایک دوست یاد آیا۔ اس سے پیش تر ایک جملہ ذہن میں کوندا جو وہ اکثر کہا کرتا تھا۔یار لوگوں نے تو خیر وہ جملہ اس کی چھیڑ بنا لیا تھا۔جملہ تھا کہ ”انسان بننا اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے“۔جب کسی دوست یا کولیگ کی طرف سے کوئی شرارت بھرا مذاق ہوتا تو وہ اپنے مزاحمتی احتجاج کو اس جملے میں سمو کر دل کا غبار ہلکا کر لیتا تھا۔سیدھا سادہ، دُور کہساروں کا باسی بات بھی سیدھی کرتا تھا۔ اس کے لب و لہجے میں بناوٹی توڑ مروڑ کا شائبہ تک نہ تھا جو کہ تہذیبِ نو کا خاصہ سمجھی جاتی ہے۔ مالک اس سچ کی مانند اُجلے یارِ طرح دار کو سر سبز رکھے۔ اس جملے کی وساطت سے سوچ کی کڑیاں ملتی چلی گئیں۔ اہلِ دانش کی باتیں، عمرِ گزشتہ کے مشاہدے کسی قدر ربط کے ساتھ ذہن کے پردے پر فلم کے ٹریلر کی طرح گزر گئے۔


زندگی ڈھونا اور زندگی گزارنا دو الگ چیزیں ہیں۔ ایک اور چیز ہے زندگی کرنا۔ اصطلاح شاید اجنبی محسوس ہو لیکن ہے درست۔ زندگی کوایک کام، ایک مشن بلکہ ایک چیلنج سمجھ کر ”کرنا“ اور چیز ہے اور ایک بوجھ سمجھ کر ڈھونا دوسری چیز ہے۔ یہی وجہ ہے جب کسی پشتو بولنے والے کا واسطہ پہلی پہلی بار اردو سے پڑتا ہے تو وہ اپنے مقامی محاورات کا ست رنگی اردو میں ترجمہ کرتا ہے۔وہ علم حاصل کرنے کو ”علم کرنا“ کہتا ہے۔”فلاں علم کر رہا ہے“ یا ”فلاں نے اتنے برس علم کیا“۔یارانِ نکتہ داں شاید معترض ہوں لیکن مجھے ان بظاہر شکستہ جملوں میں ایک گہری مقصدیت کا پہلو دِ کھتا ہے۔زندگی صحیح معنوں میں کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط انسان بننا ہے۔اور ”بننا“ ایک کام ہے۔ایک عملِ جاں گسل ہے۔اس طویل المدتی پروجیکٹ پر عمریں صرف ہو جاتی ہیں۔اس” بننے“ کے لیے کتابیں حفظ یاد ہونا،مروّجہ علم کے اصولوں کا ازبر ہونا اہم شرط ہے نہ اس بابت کسی ڈپلومے یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔ یہ ”بننا “کسی مخصوص وضع و ہیئت پر موقوف نہیں۔ یہ تو بس نام ہے شعور بیدار رکھ کہ جینے کا۔ جملہ حواس کام میں لا کر مشاہدے، تجربے،تجزیے اور 
عمل کا۔جب آدمی ایک الگ انداز سے دیکھنے،سوچنے،سمجھنے اور نتائج ترتیب دینے کے قابل ہو جاتاہے تواس کی ترجیحات یکسر بدل جاتی ہیں۔ J.D.BOATWOOD کا جملہ یاد آتا ہے۔''Hold your head too high and you will stumble over unseen obstacles'' مطلب یہ کہ اُسے نادیدہ حقائق دِکھنے لگتے ہیں۔


اخلاقیات اور معاشرت کا نظری علم تو کتابوں میں موجود و محفوظ ہے لیکن عمل کی دنیا میں قحط ہے۔ انسانوں کا کال پڑا ہوا ہے۔ علم والوں سے سنا ہے کہ دین کی تعلیمات کا دو تہائی سے سوا معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔ وجہ واضح ہے کہ دنیا میں معاملات ہی وہ کھونٹیاں ہیں جن کے ساتھ انسان بندھے ہوئے ہیں۔سنِ شعور سے لبِ گور تک آدمی اور معاملات کاتعلق چلتا رہتا ہے۔لفظ ِمعاملات گھر،والدین،تعلیمی اداروں،دفاتر،کارخانوں غرض ہر جگہ انسانوں کے انسانوں سے لین دین،معائدات وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے۔آدمی کی بیشتر زندگی انہی کے گرد گھومتی ہے۔ان تمام شعبوں میں سر خروئی کے ساتھ وہی شخص آگے بڑھ سکتا ہے جو ”انسان“ بن چکا ہو۔لیکن مذکورہ دوست کے بقول”انسان بننا ایک مشکل کام ہے۔“ انسان بننا مشکل کیوں ہے؟ یہ ہے اصل قضیہ۔۔۔وہ کسی نے کہاہے نا۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

فرشتہ تو ٹھہرا سدا کابے خطا کہ غلطی کا عنصر اس کے اجزائے ترکیبی میں نہیں۔ وہ تو بس سراپا طاعت و عبادت ہے۔ رہا انسان تو سیانے بتاتے ہیں کہ سراپا نسیان ہے۔ خیر وشر، بھلا و بُرا ہر دو طرح کے عناصر سے ترکیب پاتا ہے۔ عناصرِ شر اسے گناہ کی جانب برابر دھکیلتے رہتے ہیں۔ گاہے غلطی کر بیٹھتاہے اور بہت مرتبہ بچ نکلتا ہے۔ درحقیقت غلطی کرنا اتنا شدید جرم نہیں جتنا کہ بے حس ہو جانا قابلِ مذمت ہے۔ غلطی کرنااور منہ اُٹھا کر آگے چل پڑنا، غلطی سے کچھ نہ سیکھنا بڑاجرم ہے۔ ہمارا معاشرہ بد قسمتی سے اسی جرم کا مرتکب چلا آرہا ہے۔یہاں غلطیوں سے سیکھنے کا احساس ناپید ہے اور کیوں نہ ہو کہ غلطی کرنا اب توفن گردانا جا رہا ہے۔کسی نے انہی حالات سے تنگ آ کر دہائی دی تھی کہ ”میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انسان ہو کر“۔شاعر کی شرمندگی کی بنیادی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کی انسان نما اسٹرکچر میں انسانیت مفقود ہو چکی ہے۔

کہا گیا کہ شعور کا بیدار ہونا انسان بننے کے لیے اہم ہے۔شعور کی بیداری سوچنے پر منحصر ہے۔کم لوگ جانتے ہیں کہ سوچنا بھی ایک مستقل کام ہے۔کسی بھی عمل سے پہلے اور اس کے بعد لمحہ بھر کے لیے سوچنا۔اس کے متضاد پہلوو ¿ں کا جائزہ لینا۔آگے بڑھنے سے پہلے پچھلے اقدام کے نتائج کولمحہ بھر کے لیے سامنے رکھنا۔پچھلی غلطیوں ،کمزوریوں اور کوتاہیوں کو تنقیدی چھلنی سے گزارنے کے بعد آئندہ کا ردِّ عمل طے کرنا۔یہ ایک پریکٹس ہے جو سانسوں کا ڈورا ٹوٹنے تک ایک معقول آدمی جاری رکھتا ہے۔یہی چیز آدمی کے کردار کو ترقی کی راہ پر ڈالتی ہے۔ہم مجموعی طور پر جب کرپشن،فراڈ،دھوکہ وغیرہ کے الفاظ سنتے ہیں تو ہمارا ذہن دوسروں کی کھود کرید اور تجزیے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ہم ان بدنام عنوانات کو اپنی ذات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے افراد کے ماتھوں پر ٹانگنے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔کسی نظر والے نے کہا تھا کہ ”جب کسی اچھی خوبی کا ذکر اور اس کی مدح سرائی ہو رہی ہو تو یہ خوبی دوسروں میں تلاشی جائے اور اگر کسی بُرائی کا ذکر ہو تو اپنی ذات کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر کہ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ “یہ ہے اصول کردار کی تعمیر کا۔ اسے مدِّنظر رکھ کر انسان بننے کے عمل کی مشکلات کافی حد تک آسان ہو سکتی ہیں۔

کچھ مشینی مزاج لوگ اس بابت سرگرداں رہتے ہیں کہ انسان بننے کے لیے کسی مخصوص حدودِ اربعہ کا ادارہ جائن کیا جائے جہاں کوئی مشین ہو۔اس کے ایک جانب سے اندر داخل ہوں اور دوسری طرف سے صاف دُھلے دُھلائے باہر نکلیں۔ایسا تو ہونے سے رہا۔بعض دوسرے شاکی ہیں کہ زندگی سیکھی تو جائے مگر کس سے؟ فلسفہ دان نے انوکھے انداز میں اس کا جواب دیا''When the student is ready the teacher will appear" ۔مطلب یہ کہ سنجیدہ تڑپ شرط ہے۔جب آپ کے اندر کا وہ شعور بیدار ہو جاتا ہے جس کی ترقی یافتہ صورت کے لئے اشرف المخلوقات کا ٹائٹل رکھا گیا ہے۔وقتی اور عارضی کششوں میں کھو کر انسانیت کے حقیقی مقاصد سے جاہل اور بے خبر رہنا جرم ہے۔ زندگی گو کہ تیز ہے۔ مصروفیات زندگی کے قدرتی حسن کو متاثر کر رہی ہیں۔ اخلاقی اقدار کے لیے سب سے نقصان دہ پہلو وہ جب آدمی کو اپنے لیے وقت نہ ملے۔اسے انسانیت،اس کے مقاصد اور اپنی ذات کے تقابلی جائزے کی فرصت نہ ملے۔ہمیں ایک لحظہ ٹھہر کراپنی دنیا میں موجودگی کے جواز پر سنجیدگی سے غور کر کہ اپنی ترجیحات کی درجہ بندی کر کہ صحیح معنوں میں انسان ”بننے“ کے عمل کی ابتداءکرتا ہو گی۔آخر میں جارج بورڈ مین کی بات''Sow an act,and you reap a habit;sow a habit,and you reap acharacter,and you reap adestiny'' ایک عمل بو کر ایک عادت کاشت کریں اور ایک عادت بو کر کردار حاصل کریں اور پھر خوش بختی آپ کا مقدّر ہو گی۔ رہے نام اللہ کا۔

Wednesday 6 May 2015

سب دن مزدور کے

سب دن مزدور کے

 یکم مئی دو ہزار تیرہ کو لکھا گیا ایک کالم 
مئی کا مہینہ ہے اور اس کا پہلا دن۔اس دن کی اہمیت کچھ بھی ہو ہم اُسے مزدور کے حوالے سے جانتے ہیں۔وہ برسوں پہلے کئی مزدوروں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی۔جب وہ اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج تھے۔زمین پر پھیلے خونِ غریباں کو دیکھ کر کسی مزدور کے ذہن میں جانے کیا خیال کوندا کہ اس نے اس لہو میں ایک کپڑا رنگ کر لہرا دیا۔یہ یکم مئی 1886ء کا دن تھا۔اس وقت سے ’’سرخ رنگ‘‘ مزدوروں کی تحاریک کا استعارہ بنا چلا آرہا ہے۔

مزدور کی ہمارے درمیان کیا حیثیت ہے؟کسی بھی مشین کا بنیادی پرزہ،گاڑی میں انجن،انسانی جسم میں نیو کلیس۔کچھ بھی کہہ لیجیے۔زمانے کی تمام سہولیات،آلات واسباب ِ آسائش اُسی بوسیدہ لباس،غبارر آلود بالوں اور گھسے جوتوں والے محنت کش کی تھکا دینے والی محنت کا نتیجہ ہیں۔اپنی ذات،چھ فٹ کا بدن دیکھیے۔آپ کا خوبصورت لباس،آنکھوں پر سجے برانڈڈ چشمے،بالوں میں مہکتا تیل،پُرسکون گھر،سواری غرض ہم میں سے ہر شخص مزدور ہی کی محنت کے بل بوتے پر ڈھنگ کی زندگی گزار رہا ہے۔گویا مزدور ہمارے لیے از حد اہم ہے ۔دنیا میں جو چیز جتنی اہم ہوتی ہے اُتنی ہی عام ہوتی ہے ۔پانی کو دیکھیے۔ حیات کی اصل ہے مگر عام کتنی ہے۔ہوا کی مثال لے لیجیے۔کبھی عام حالات میں اس کی موجودگی کو شعوری انداز میں نہیں سوچا جاتا لیکن اہمیت اس کی طے شدہ ہے ۔مزدور بھی اسی طرح عام اور اہم ہے۔لیکن ہم بہت کم اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ہم اپنی زندگیوں کی رنگینیوں میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کی کسی جھونپڑی میں بسنے والے محنت کش کی زندگی ،ضروریات اور حالات ہماری نظروں اور ذہن سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔

مزدور کی طرف کم توجہ دینا تو تھا ہی۔لیکن اس سے بڑھ کر الم ناک حقیقت مزدور کا نہ رکنے والااستحصال ہے۔اور یہ کم وبیش ہمیشہ ہوتارہاہے۔مزدور سے کم اُجرت پر ہڈیاں نچوڑ دینے والا کام لینا،اس کے ساتھ تحقیر آمیز امتیازی روّیہ روا رکھنا۔اس کو ایسے حالات سے دو چار رکھنا کہ وہ بہر صورت کم اُجرت پر زیادہ سے زیادہ دورانیے کی پر مشقت مزدوری کرنے پر مجبور رہے۔یہ مسائل مزدور کو ہر زمانے میں درپیش رہے ہیں۔محنت کشوں کے لیے یکم مئی کی تاریخ کا حوالہ تو بہت بعد کی بات ہے۔مزدور سے زیادتی کا عمل اوراس کا مستقل اندیشہ اگر نہ ہوتا تو اسلام کئی صدیاں پہلے ــ’’محنت کش کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا عوضِ محنت ادا کرنے‘‘ کی تاکید کبھی نہ کرتا۔

ہمارا مسئلہ’’ اسٹیٹس کو‘‘کی کھوکھلی عمارت کا طواف ہے۔محنت کش سے ہاتھ ملانا،اس کے ساتھ اپنے ’’اصلی والے‘‘ منہ سے بات کرنا،اس کے ساتھ مسکرانا،اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا اپنے نام نہاد اسٹیٹس کو اور مصنوعی معیار کے خلاف سمجھتے ہیں۔ہم اپنی کمپنی،اپنی دکان،اپنے ادارے کے ملازم کے ساتھ بے تکلف اس لیے نہیں ہوتے کہ’’ بلاوجہ سَر چڑھ جائے گا‘‘۔ہم اس کو اس کی ’’اوقات‘‘ میں رکھنا چاہتے ہیں۔لیکن لمحہ بھر کے لیے سوچا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم اس ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی پرستش کے باعث اپنے آپ کوایک قدرتی اور خوبصورت دُور رکھنے کی مشقّت مسلسل اُٹھا رہے ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ محنت کش کی مدد اور حمایت یہ ہے کہ اس کے حق میں مضامین لکھے جائیں۔شعر کاڑھے جائیں۔یونینیں قائم کر کے جلسے ،ریلیاں بر پا کی جائیں۔ان کے ساتھ منسوب دن پر اخبارات کا کوئی صفحہ خاص کر کہ چھاپا جائے۔ان سب باتوں کی اہمیت سے انکار نہیں ۔مگر یہ کفایت نہیں کرتے۔جو لوگ اوپر ذکر کیے گئے کام نہیں کر سکتے وہ محنت کشوں کے ساتھ کیا ہمدردی کر سکتے ہیں؟اس کے لیے دماغ سوزی کی ضرورت ہے نہ کسی کارل مارکس و لینن کے فلسفے پر سر دحننے کی۔آسان اور سادہ ہے۔آپ اپنے سے متعلق مزدورکو اپنا بھائی اور اپنی ہی طرح کا انسان سمجھئے۔اسے اِسی معاشرے کا فر دسمجھئے۔یہ تصور کیجیے کہ اس کے پہلو میں بھی دل ہے۔اوراس دل میں بالکل اسی طرح خواہشات انگڑائیاں لیتی ہیں جیسے آپ کے دل میں۔اس کے بچے بھی کھلونے مانگتے ہیں۔اُس کی بیوی بھی نئے پہناوے کی تمنّا رکھتی ہے۔آپ ایک کام کیجئے۔اُس کا محنتانہ بر و قت اور پورا پورا احترام اور شکریے کے ساتھ ادا کر دیا کیجیے۔اس سے بڑھ کر مزدور کی کوئی مدد نہیں۔

اوپر میں نے کہا ’’آپ کا مزدور۔‘‘جی ہاں ! آپ کے گھر گرمیوں اور جاڑوں کی پرواکیے بغیر بلا ناغہ آٓنے والی آیا۔آپ کے باغیچے کو سر سبز اور خوشگواررکھنے والا مالی۔اپنے گھر سے دُوراپنی راتیں آنکھوں میں کاٹ کر آپ کو مطمئن سُلانے والاچوکیدار بابا۔آپ کے انتظار میں دن کے کئی پہر اور بعض مرتبہ گھنٹوں گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے چپکا رہنے والا ڈرائیور۔ہر صبح آپ کی دہلیز پر آنے والا دودھ والا۔آپ کی دکان پر کام کرنے والا ملازم۔آپ کے ادارے کا آفس بوائے اور اسٹاف۔آپ کے عالیشان ہوٹل کا بیرا۔آپ کے مشہور اور کام یاب اخبار یا رسالے کا رپورٹراور کارکن۔یہ سب آپ کے براہِ راست مزدور ہیں۔یہ آپ سے تھوڑا احترام،ذرا سی ہمدردی،کبھی کبھار سہی مگرہنستے چہرے کا مختصر سا مکالمہ اورسب سے بڑھ کر اپنی بروقت مزدوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں مانگتے۔

کچھ محنت کش آپ کے براہِ راست کلائنٹ تو نہیں لیکن آپ کی تھوڑی سی ہمدردی اور مدد وہ بھی چاہتے ہیں۔آپ کی گلی میں ’’چٹ پٹے چھولے ‘‘ کی صدا لگانے والا،بندر اور ڈگڈگی کو اپنے رزق کا ذریعہ بنا کر کوچہ کوچہ پھرنے والا،پتیسے بیچنے والابابا،ٹریفک سگنل پر آپ کی گاڑی کے قریب آکر پھولوں کے ہار پیش کرنے والا لڑکا،ہاتھ میں سَرف اورچھوٹا سا وائپر تھامے کبھی آپ کی جانب اور کھبی آپ کی گاڑی کی دنڈ اسکرین کی طرف امیّد بھری نگاہوں سے دیکھنے والا میلے کپڑوں میں ملبوس بچہ۔آپ کی گلی میں آنے والا پھیری والا۔یہ سب لوگ اپنی روٹی روزی کی تلاش میں کوچہ کوچہ پھرتے ہیں۔ان سے کچھ خریدا جائے یا نہ خریدا جائے۔یہ آپ کی مرضی اور ضرورت پر مبنی ہے۔لیکن ان کا انسانی مساوات کے تحت احترام اور اپنے روّیے سے ان لوگوں کے لیے اپنائیت کا اظہار۔کم از کم انھیں جھڑکا نہ جائے۔یہ ہماری طرف سے ان کی مدد ہے۔

اپنی ضروریات اور روزمرّہ گھریلو اشیاء کی قیمتوں اور آمدنیوں کے تناسب کا اجمالی اندازہ ہم سب کو ہے۔بڑھتے ہوئے نرخوں کے ساتھ محنت کش کے معاوضے میں اضافے کی جانب بھی توجہ دی جانی چاہیے۔یہ بات لکھتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں ہوں کہ ابھی میں اپنے لوگوں سے مایوس نہیں ہوں۔3سال اُدھر کی بات ہے۔ کسی علمی مجلس میں ایک علم والے نے اپنے ادارے کے سربراہ کے حوالے سے سنایا۔یہ پاکستان کا معروف ادارہ ہے۔اس کی کئی شاخیں کام کر رہی ہیں۔ یہ’’علم والا ‘‘ان میں سے ایک شاخ کا انچارج ہے۔علم والا کہتا ہے’’ایک دن ادارے کے سربراہ نے دورانِ گفتگو مجھ سے پُوچھا کہ’’ آپ کے زیرِ نگرانی چلنے والی شاخ (برانچ) کے فلاں شعبے میں صفائی وغیرہ کا کام کرنے والا کتنی تنخواہ لے رہا ہے۔‘‘ میں نے کہا:’’مبلغ 5 ہزار روپے‘‘۔میرا جواب سن کر سربراہ کو جیسے جھٹکا سا لگا اور لمحہ بھر توقف کے بعد مجھ سے پوچھا۔صاحب!مجھے بتائیے’’اس مہنگائی کے دور میں ایک عیال دار آدمی اتنے کم پیسوں میں کیسے گزارہ کر سکتا ہے؟‘‘۔میں نے دھیمی آواز میں جواب دیا:’’جی کیا کہہ سکتا ہوں۔‘‘’’آپ کو پتہ ہے ہمارے ملک کے حکمران نے کچھ عرصہ پہلے یہ حکم دیا تھا کہ مزدور کی کم سے کم ماہانہ اُجرت’’ اتنی ‘‘ہونی چاہئےــ؟ــــ‘‘سربراہ نے اُن دنوں وزیرِ اعظم کی طرف سے جاری کیے گئے حکم نامے میں بتائے گئی مقدار بتاتے ہوئے کہا۔سربراہ نے دلیل دیتے ہوئے مزید کہا: ’’آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ حکمران جیسے بھی ہوں ،مفادِ عامہ کے کام میں ان کے حکم کی تعمیل لازمی ہے۔‘‘ میں نے اثبات میں سے ہلایا۔پھر سربراہ نے قدرے سخت انداز میں مجھے حکم دیا’’فوراً اس محنت کش کی تنخواہ بڑھا کر’’ اتنی ‘‘کر دی جائے۔‘‘سربراہ نے جو مقدار بتائی وہ حکومت کی متعیّن کردہ مقدار سے 4 یا 3ہزار زیادہ تھے۔

میں نے جب اس’’علم والے‘‘ سے یہ واقعہ سُنا تو میرا جی چاہا کہ سب لوگوں خاص طور پر بڑے اداروں کے مالکوں، کارخانے داروں، پٹرول پمپز کے مالکوں اور ہر اس شخص تک یہ واقعہ پہنچ جائے تو کتنا اچھا ہو۔شاید کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ اتنے بڑے ادارے کا اکیلا سربراہ،ہر دم مختلف قسم کی مصروفیتوں میں گِھرا رہنے والا انسان اپنے ادارے کی ایک برانچ کے بظاہر معمولی سمجھے جانے والے مزدور کے بارے میں سوچنے، اس کے حالات اور مسائل جاننے کے لیے کیونکر وقت نکال سکتا ہے۔آج محنت کش کا تذکرہ چلا تو پہلی بار میں نے آپ سے یہ واقعہ’’شیئر‘‘کردیا۔

حرفِ آخر:اب کی بار میں نے عالمی مزدور تحریک، مزدور یونینوں، مزدوروں کے نام پر سیاست، کارل مارکس، لینن، ماؤزے تنگ، کاسترو، اٹالن اور ٹراٹسکی کے نقطہ ہائے نظر،اس فلسفے کا بعض ممالک میں نفاذ، اس کا زوال، اس کی اساسیات میں مجبوراّ کی جانے والی تحریفات، ان دنوں وہاں کے مزدور کی حالتِ زاراِن سب باتوں(جن کو سرسری ’’ٹچ‘‘ دینا روایت چلی آ رہی ہے) سے احتراز کیا ہے۔اِن کا مقام کوئی اور اخباری کالم ہوگا۔اب کی بار میں نے اپنے پڑھنے والے سے محنت کشوں کے بارے میں آسان اور سیدھی سادی باتیں کرنے کا ارادہ کیا تھا،سو میں عرض کر چکا۔ باقی مرضی قاری کی

پانی،موٹے ہاتھ والا اور سانولا بچہ


پانی،موٹے ہاتھ والا اور سانولا بچہ



گزرے کئی ایّام سے ایک تصویر ذہن کے پردے سے چپکی ہوئی ہے۔اس منظر میں دردناک پیغام ہے جس نے مجھے مغموم بنا رکھاہے۔تصویر میں کیا ہے؟پانی کا ایک پائپ ہے جس کے سرے پر ایک نل ہے۔اس ربڑ پائپ کو ایک موٹے سے ہاتھ نے دہرا کر کے اپنی مٹھی میں بھینچ رکھا ہے۔نل کے سامنے گہری سانولی رنگت والا ننگ دھڑنگ بچہ،جس کی ناصرف پسلیاں بلکہ تمام ہڈیاں آسانی سے شمار کی جاسکتی ہیں۔اس کی موٹی موٹی آنکھیں وحشتوں ،ویرانیوں کی آماج گاہ معلوم ہوتی ہیں۔بچہ اپنا منہ نل کے انتہائی قریب کئے ہوئے ہے۔اس امّید پر کہ شاید پانی کا کوئی قطرہ اُس کے خشک حلق کو تر کرنے اِدھر نکل آئے۔اُسے نہیں معلوم کہ اُس کی اس معصوم سی امّیدکی بر آری دہرے پائپ سے چپکی ہوئی ہے اُس مٹھی کی ایک ذرا سی جنبش پر موقوف ہے۔جو اپنی جو اپنی گولائی اور موٹائی کے اعتبار سے کسی آسودہ حال کی مٹھی معلوم ہوتی ہے۔وہ بے چارہ بچہ پانی نہ ملنے پر بار بار اس نل کو کوسنے لگتا ہے۔وہ بے خبر نہیں جانتا کہ پانی نہ آنے میں نل کا کوئی قصور نہیں ۔پانی نہ ملنے کی اصل وجہ کوئی اور ہے۔


بچہ جب قطعی طور پر ماےوس ہوجاتا ہے تو وہ نامعلوم مٹھی لمحہ بھر کے لئے اپنی گرفت ڈھیلی چھوڑ دیتی ہے۔پانی کے چند قطرے جو خشک پائپ اور نل کی پیاسی دیواروں کو سیراب کرنے کے بعد بچ جاتے ہیں،نل کے منہ سے بر آمد ہوتے ہیں۔اُن میں سے بھی کچھ بچے کے منہ میںباقی زمین پر گِرکرتشنہ غبار کارزق بن جاتے ہیں۔ مرنے والا بچہ پھر کچھ لمحے کے لیے جینے لگتا ہے۔آبِ حیات کی اِس گزرگاہ کاوالو ایسے ہاتھ میں ہے جوآب جُو کوایک دم مرنے دیتاہے اورنہ ہی کُھل کر جینے دیتا ہے۔وہ اس سانولے پیاسے بچے کو موت اور حیات کی درمیانی مسافت میں پنڈولم کی طرح پیہم گردش میں دیکھتے ہوئے فرحت محسوس کرتا ہے۔کیوں کہ جینا اور بھرپور جینا اُس موٹے ہاتھ والے کاحق ہے۔باقی لوگ اُس کی زندگی کو بھرپور بنانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔وہ اُس کی 
آسودگی کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں موجود ہیں۔قطع نظر اس بات کے وہ اس خدمت میں اپنی جان کی بازی بھی لگا بیٹھیں۔


اس نامعلوم” موٹے ہاتھ والے“ نے رسد گاہِ حیات پر اپنی گرفت کیوں رکھی ہوئی ہے؟وہ پانی کے بہاﺅ کو آزاد چھوڑنا کیوں نہیں چاہتا؟وہ طویل وقفوں کے بعد صرف چند قطرے اور وہ بھی قسطوں میں کیوں چھوڑتا ہے؟کیوں کہ اُسے پتہ ہے اگر وہ پانی کے بہاﺅ کو آزاد چھوڑ دے گا تو”آب جُو“ ہڈیوں کے ڈھانچے میں زندگی دوڑنے لگے گی۔اور زندگی خوب سے خوب تر کی جانب لپکتی ہے۔اگر اس سانولے بچے کی تمام رگیں پانی سے تر ہو گئیں تووہ اس دنیا میں رہنے کے لیے ”ضرورت“ سے زیادہ پُر اُمّید ہو جائے گا۔وہ بھی بھر پور جینے کی تمنّا اپنے دل میں پالنے لگے گا۔اِس خواہش کی تکمیل کی راہیں تلاشے گا۔اور عین ممکن ہے ایک دن ایسا ہو کہ وہ پانی کی ایک بوند کو ترستا ”سانولا بچہ“ اُس” موٹے ہاتھ والے“ آسودہ حال کے مقابل کھڑا ہو یا اُسے بہت پیچھے چھوڑ جائے۔یہ ہے وہ خوف جو ”موٹے ہاتھ والے“ کوربڑ پائپ پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔وہ چاہتا ہے کہ یہ بچہ اپنی پیاس بجھانے کے علاوہ اور کچھ سوچ بھی نہ سکے۔اسے ایسے حالات میں رکھا جائے کہ وہ پانی کے چند قطروں کی خیرات کو اپنا سرمایہ ¿ حیات سمجھتا رہے۔جب تک اُس کی روح جسم کے پنجرے میں قید ہے وہ کبھی اپنے آپ کو تو کبھی اس نل کوکوستا رہے۔وہ لمبے انتظار کے بعد مڑ مُڑ کر اِسی نل کی طرف آتا رہے جو اُسے اکثر مایوس کرتا ہے۔اور کبھی حلق تر کرنے کو چند قطروں کی خیرات بھی دے دیتا ہے۔

ٓٓآج تیسری دنیا کا ایک عام آدمی وہی ”سانولا بچہ“ہے،جو کسی مٹھی میں دُہرے کیے گئے پائپ کے آگے لگے نل کے سامنے بیٹھ کر پانی کے چطن قطروں کے انتطار میں عمر گزار دیتاہے۔کئی مرتبہ انتظار کرتے ہوئے اس کی امّیدیں ڈوبنے لگتی ہیں اور وہ نل کے سامنے سے اُٹھنے لگتا ہے،تو اچانک نل کے منہ سے ہوا کی بھک بھک کے ساتھ چند قطرے بر آمد ہوتے ہیں۔جن میں چند اس کے حلق میں اُتر پاتے ہیں۔اس طرح ایک باار پھر امّید کی شمع جل اُٹھتی ہے اور دوبارہ سے وہ نل کے سامنے اکڑوں بیٹھنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔”موٹے ہاتھ“والا اُسے بالکل مایوس بھی نہیں کرتا کہ کہیں باغی ہو کر نل اور پائپ سب کچھ برباد ہی نہ کردے اور بہت زیادہ پُر امّید بھی نہیں ہونے دیتا کہ ناحق جی اُٹھے گا۔

مالکِ ارض و سماءنے ”پانی“ سب کے لئے بنایا ہے۔اس نے” پانی“ کے استحقاق کے باب میں ماننے اور نہ ماننے والے کی کوئی تخصیص نہیں کی۔اُس نے سب رنگوں ،نسلوں،زبانوں،علاقوں اور قوموں والوں کواس نل سے استفادے کا اپنی صلاحیتوں اور ضرورتوں کی بقدر استفادے کا اذن عام دیا ہے۔پھر یہ” موٹے ہاتھ والے“ بیچ میں کہاں سے آ ٹپکے کو عام استفادے کی رسد گاہوں پر ناکے لگائے بیٹھے ہیں۔جو پائپ کر دُہرا کر کہ اپنی مٹھی میں دبائے ہوئے ہیں۔جب اور جس قدرچاہتے ہیں گرفت ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیںاور جب چاہتے ہیں اپنی مٹھی بھینچ لیتے ہیں۔مالک نے اگر طلب کو آزاد چھوڑا ہے تو رسد کی کسی راہ پر بھی کوئی قدغن نہیں لگائی۔پھر یہ کون ہیں جو رسد کی اِن راہوں تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد اپنی چونگیا ں لگائے بیٹھے ہیں۔

نان سیریس لوگ یہ

 نان سیریس لوگ  




یار !یہ جو’’ نان سیریس‘‘ قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔یہ عجیب ہوتے ہیں ۔یہ اکثر ہنستے اور ہنساتے نظر آتے ہیں ۔بہت مرتبہ ان کی زندگی پر رشک آنے لگتا ہے۔یوں لگتا ہے انہوں نے دکھ غم قسم کی چیز کبھی دیکھی ہی نہیں۔لیکن ایسا ہے نہیں...یہ سطحی دکھائی دینے والے لوگ ہوتے بڑے گہرے ہیں۔آپ کبھی کسی ’’نان سیریس‘‘ شخص کو اعتماد میں لیجیے۔اُسے کسی پُرسکون جگہ بٹھا کر کریدیے ۔اوّل تو وہ آپ کے سوالوں اور اس کی ذات میں آپ کی دلچسپیوں کو اپنی مسکراہٹوں میں اُڑائے گا۔وہ اپنی عادت کے مطابق آپ کو لطیفوں ،قصّوں میں اُلجھا کر دامن چھڑانے اور رسی تُڑانے کی کوشش کرے گا۔ وہ یہ باور کرانے پر اصرار کرے گا کہ اس نے آپ کی بات کا نوٹس ہی نہیں لیا ۔ تجاہلِ عارفانہ کا سہارا لے گا۔آپ ڈٹے رہیے ۔کچھ دیر بعد وہ آپ کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا ...وہ آپ کو ان گنت قہقہوں اور بے شمار مسکراہٹوں کے نیچے دبے وہ دُکھ نکال نکال کر دکھائے گا ۔ ۔ ۔وہ ہرزخم کی الگ داستان سنائے گا ۔وہ آپ کو زندگی کے بے شمار سبق سمجھائے گا ۔تھوڑی دیر کے لیے آپ حیران ضرور ہوں گے ۔ مگر جان جائیں گے کہ زندگی کسی ایک صدمے،کسی ایک دکھ،کسی ایک محرومی کے بوجھ تلے عمر گزار دینے کا نام نہیں ۔تکلیف دہ واقعات کا سامنا کون نہیں کرتا۔انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دینے والے سانحات کس کے ساتھ پیش نہیں آتے۔لیکن زندگی اپنے چہرے کو ہر وقت دکھوں ،محرومیوں ،غموں کی آرٹ گیلری بنائے رکھنے کا نام نہیں۔زندگی اپنے کو کسی ایک صدمے کی بھٹی میں جھونک دینے کا نام نہیں۔زندگی روتے رہنے کا نام نہیں ۔ یہ’’ نان سیریس‘‘ کہلائے جانے والے لوگ زندگی کے سب سے بڑے استاد ہیں ۔یہ گِر کر دوبارہ ایک نئے ولولے سے اُٹھنا سکھاتے ہیں۔ یہ ٹوٹ کر بکھر جانے واالے دل کی کرچیاں اکٹھی کر پھر سے جوڑننا سکھاتے ہیں۔یہ سکھاتے ہیں کی غم سے مر جانے والا دل دوبارہ کیونکر جِلایا جا سکتا ہے۔یہ بلا کے خوددار ہوتے ہیں۔ اپنے غم کو کسی کے حرفِ تسلّی کے عوض ہر گز نہیں بیچتے۔یہ ہنستے ہیں اور ٹوٹ کر ہنستے ہیں ۔ بے پناہ ہنستے ہیں۔ان کے قہقہے ان کے ناتوان ہو جانے والے جذبوں کو ایک نئیتوانائی بحشتے ہیں۔یہی وجہ ہے یہ’’ نان سیریس‘‘ لوگ زندگی گھسیٹتے نہیں گزارتے ہیں ۔ہاں گزارتے ہیں ۔یہ کسی ایک حادثے کوکبھی اتنا سرکش نہیں ہوتے دیتے کہ وہ انہیں گزار دے ۔یہ ’’نان سیریس‘‘ لوگ واقعی عجیب ہیں۔ہیں نا...؟