Sunday 28 June 2015

فیس بک ۔ ۔ ۔ کتھارسس VS ڈیپریشن

فیس بک ۔ ۔ ۔ کتھارسس VS ڈیپریشن 


کل ایک افطار ڈنر کے بعد ہوٹل کے سموکنگ لاونج میں چند احباب کے ساتھ بیٹھا تھا ۔بات سوشل میڈیا کی چل نکلی ۔مخاطب ایم فل کر چکا تھا اور اب پی ایچ ڈی کے لئے سوشل میڈیا کی ایک جہت کو بطور عنوان منتخب کرنے کے بارے میں غور کر رہا تھا ۔ کافی باتیں ہوئیں ۔پھر اس نے سوال اٹھایا کہ:سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے ایشوز کی انتہا (Conclusion)کیا ہوگی؟
آیاکوئی ایسا سائبر قانون بن سکتا ہے جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے مواد کو قابل اعتماد بناسکے؟
میرا موقف تھا کہ سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک ایسے ہی رہے گی ۔یہاں جھوٹی سچی معلومات کا ریلا اسی شدت سے بہتا رہے گا ۔پھر کچھ مثالوں کے ساتھ اس کے مثبت پہلو بھی گنوائے ۔یہ ڈسکشن کافی اچھی رہی چونکہ بندہ بھی اچھا تھا ۔ویسے بھی میں اس مسئلے کے بارے میں فکر مند تھا۔میرا موقف تھا کہ سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک ایسے ہی رہے گی ۔یہاں جھوٹی سچی معلومات کا ریلا اسی شدت سے بہتا رہے گا ۔پھر کچھ مثالوں کے ساتھ اس کے مثبت پہلو بھی گنوائے ۔یہ ڈسکشن کافی اچھی رہی چونکہ بندہ بھی اچھا تھا ۔ویسے بھی میں اس مسئلے کے بارے میں فکر مند تھا۔اب سنئے۔۔۔۔!
میں ایک طویل عرصے سے فیس بک پر مختلف خیالات کے لوگوں کی پوسٹیں اور بحثیں دیکھ رہا ہوں ۔ صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطےسوشل میڈیا میرے مطالعے کا میدان بھی ہے ۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ مذہبی طبقہ اچانک اس فورم پر نمودار ہوا ۔انہیں اچانک احساس ہوا کہ جدید عہد کے ساتھ چلنے کے لئے فیس بک پر موجود ہونا بہت ضروری ہے ۔بہت سوں نے اسے دنیا میں خلافت کے احیاء کے لئے اہم وسیلہ کے طور پر اختیار کیا ۔کچھ اپنے اپنے پیروں ،مولویوں،ذاکروں اور مفتیوں کی پبلسٹی کے لئے یہاں آئے ۔ایک بڑا گروہ مسلکی بریگیڈ بنا کر فیس بک پر جلوہ افروز ہوا ۔پھر کیا تھا سرگوشوں سے ابتداء ہوئی اور بات ایک دوسرے کے گلچھڑے اڑانے تک جا پہنچی اور اس پر بھی بس نہیں ہوئی ،صورتحال مزید شدت کی جانب بڑھتی جارہی ہے ۔
میں ایسی کئی اچھی بری پوسٹیں دیکھتا رہتا ہوں ۔بعض اوقات باہم متصادم آراء بھی پڑھ لیتا ہوں۔تبصرہ مگر نہیں کرتا کیونکہ دلدل سے گھبراتا ہوں ۔یہی وجہ ہے اطمینان سے اپنے خیالات کا اظہار کر نے کے بعد متعلقہ احباب سے بات چیت کر کے فارغ ہو جاتا ہوں ۔
گزشتہ دو تین دن سے فیس بک پر معمول سے زیادہ وقت گزارا ۔صحت مند ابحاث کی تلاش میں رہا اور کچھ مل بھی گئیں ۔ لیکن مذہبی نوجوانوں کی پوسٹوں پر تُوتُکار،ابے اوئے دیکھ کر دل بہت دکھی ہو گیا ۔مجھے لگا کہ فرقہ پرست گلیوں کوچوں سے نکل کر اب فیس بک پر آ بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کا منہ نوچ رہے ہیں ۔
میرا خیال ہے کہ فیس بک یا کوئی بھی سوشل سائٹ کتھارسس اور احباب سے خوش گوار باتوں اور یادوں کو شیئر کرنے کا فورم ہے ۔ آپ اس فورم سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے مزید بہتر بنا سکتے ہیں ۔آپ بات چیت کے لئے ڈھنگ کے افراد تلاش کر سکتے ہیں ۔ علم ودانش کی بات ہو سکتی ہے ۔
کچھ افراد تو یہاں کتھارسس کے لئے آئے تھے مگر فیس بک ان کے ساتھ چپک کر رہ گئی ۔وہ گپ شپ کر کے ڈیپریشن سے نجات پانا چاہتے تھے مگر مزید ڈیپریس ہو گئے ۔ میرا خیال ہے ان ''کچھ لوگوں'' میں جو اچھے لوگ ہیں(اور انہیں خود معلوم ہے کہ وہ اچھے ہیں) انہیں سوچنا ہو گا ۔انہیں فیس بک پر ہر لمحہ موجود رہنے کی عادت سے چھٹکارہ پا کر اس کے محدود مگرصحت مند استعمال کی طرف توجہ دینی ہوگی ۔ میں فیس بک چھوڑ دینے کی بات نہیں کر رہا ۔آپ ضرور موجود رہیے مگر اپنی ذہنی صحت کے تحفظ کے احساس کے ساتھ ۔
رب راکھا!
فرحان فانی
چھبیس جون دو ہزار پندرہ ۔رات کا تیسرا پہر
لاہور

جب کوئی مرتا ہے

جب کوئی مرتا ہے


آہ ! یہ حیات کتنی بے ثبات ہے اور ہماری خواہشات کتنی لامحدود۔ چھ فٹ کا یہ انسان کتنے منصوبے 

بناتاہے ۔مڈل کلاس آدمی اچھی تن خواہ کی امید آنکھوں میں سجائے کولہو کے بیل کی مانند کسی 

اندھے کنویں کے گرد چکر کاٹتے کاٹتے گزر جاتاہے ۔اس کے دل میں یہ خواہش رہ رہ کر انگڑائیاں لیتی 

کہ کبھی تو اپنا گھر بنا لوں گا ۔میں نہ سہی میرے بچے تو چین کے دن کاٹیں گے ۔وہ اپنی زندگی میں 

کئی بار مرتا اور جیتا رہتا ہے لیکن اچانک کسی بے رحم ساعت میں اسے ایک جھٹکا ایسا لگتا ہے 

جس کے بعد مکمل سناٹا چھا جاتاہے ۔ہاں صرف ایک جھٹکا ۔وہ سارے خواب کانچ کی کرچیوں کی 

طرح بکھر جاتے ہیں ۔سارے سپنے حسرتوں کے قبرستان میں دفن ہو جاتے ہیں ۔وہ بس ۔ ۔ ۔مر جاتا ہے ۔

میں نے آج پہلی بار کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے سانسیں ہارتے دیکھا ہے ۔یقین کیجیے جب جب سوچتا ہوں دل اُچھل اُچھل کر حلق سے باہر آنے لگتا ہے ۔اپنے میٹھے قابل احترام دوست اور صحافی زوار حسین کامریڈ کی اہلیہ روبینہ زوار گذشتہ ماہ حادثاتی موت کا شکار ہو گئیں ۔موت سے دو دن قبل ان کے گھر بہت خوشگوار ملاقات ہوئی تھی ۔جب سنا تو جی نے ماننے سے انکار کر دیا لیکن کیا کیجئے دنیا کی سب سے اٹل حقیقت کو بھلا کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے ۔آج لاہور پریس کلب میں مرحومہ کی یاد میں ایک تعزیعتی ریفرنس تھا ۔مجھے اسٹیج کی ذمہ داری سنبھالنی تھی ۔لہٰذا 

وقت سے پہلے پریس کلب کی راہ لی ۔

کیمپس پل والے سگنل سے دائیں ہاتھ مڑا ہی تھا کہ عجیب منظر دیکھا ۔ سڑک کے عین وسط میں ایک شخص اوندھا پڑا تھا ۔اس سے چند قدم آگے ایک بالکل نئی بائیک الٹی پڑی تھی اور چند فٹ کے فاصلے پر ٹوٹاہوا ای سرخ رنگ کاہیلمٹ ۔میں رُکا، زخمی کے قریب گیا ۔سفید چمکدار لٹھۤے کا لباس بہت تیزی سے لال ہو رہا تھا ۔اسے دماغ کے پچھلے حصے پر ایسی شدید ضرب لگی تھی کہ اس کا سر پچک گیاتھا ۔خون اس کی آنکھوں سے اُبل اُبل کر گرم سڑک پر پھیلتا جارہا تھا ۔چند لمحوں میں لوگ بھی جمع ہو گئے ۔اُسے اُٹھا کر سڑک کے کنارے پر رکھا ۔خون اِتنا بہہ چکا تھا کہ اس کے بچنے کو کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی ۔ کسی نے 1122کو کال کی مگر کافی دیر ہو چکی تھی۔میں وہاں ماؤف دماغ کے ساتھ کھڑا کبھی خون میں لتھڑا لاشہ دیکھتا تو کبھی ان گاڑیوں کو جن کے ٹائر سڑک پر پھیلے خون کو چاٹتے جارہے تھے ۔

کچھ ہی دیر بعد 1122کی ایمبولینس آئی لیکن نامعلوم زخمی آخری ہچکی لے چکا تھا ۔وہ اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر چکا تھا ۔میں کچھ دیر کھڑا رہا ۔ذرا اوسان بحال ہوئے تو گھڑی پر نگاہ پڑی ۔ وقت کم تھا تقریب کے انتظامات بھی باقی تھے،سوبوجھل دل کے ساتھ آگے بڑھ گیا ۔ میں نے تقریب میں اپنی ذمہ داری تو کسی طرح نبھا لی مگر دماغ مسلسل سائیں سائیں کرتا رہا ۔

دوستو!مجھے آج شام پہلی بارزندگی اس قدر ناپائیدار محسوس ہوئی ۔سارے پروگرام ،سب منصوبے،مستقبل کے خواب کیا ہیں ؟بس ایک جھٹکے کی مار۔ ۔ ۔ صرف ایک جھٹکے کی ۔ ۔ ۔ دوستو! اس فانی حیات کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے ۔نہ جانے کس گھڑی ہمیں بھی جھٹکا لگ جائے اور سب کچھ ڈھیر ہو جائے ۔سو انسانوں سے محبت ،ان کی خدمت ،ان کی فلاح کونصب العین بناؤ۔خود پسندی،خودغرضی اور طمع سب کھوٹے سودے ہیں ۔عظیم مقاصد کے لئے جیو اور جب جاؤ تو ایسے کہ دل مطمئن اور سر فخر سے بلند ہو ۔
فرحان فانی
جمعہ،چھبیس جون دوہزار پندرہ
لاہور

Thursday 11 June 2015

اعجاز منگی! یہ درد کے ٹکڑے کیسے بکھیرتے ہو قرطاس پر؟


کامران! کیسے ہو؟
اعجاز منگی
وہ بچہ اب کورنگی کے قبرستان کی ایک چھوٹی سی قبر بن گیا ہے۔ وہ قبر جس پر سنگ مرمر کا کتبہ تو کیا وہ سرخ پھول بھی نہیں جو سورج کی کرنوں سے سیاہ ہوجاتے ہیں اور ہلکی سی ہوا میں اڑ جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتی ہے وہ اداس خوشبو جو اس خاموش بستی کا پتہ دیتی ہے جہاں درد دفن کیے جاتے ہیں!
وہ بچہ اب ایک غریب محلے کی گلیوں میں چلتا ہوا نظرنہیں آئے گا۔ وہ بچہ اب دوکانوں پر کوئی چیز لینے نہیں جائے گا۔وہ بچہ جس کے بارے میں کوئی ٹھیلے والا کسی واقف گاہک کو بتاتا تھا کہ ’’یہ یتیم بچہ ہے۔ اس کا والد بہت اچھا انسان تھا۔ بیماری کی وجہ سے مر گیا۔ اس کی ماں نے جس شخص سے دوسری شادی کی ہے وہ نکما؛ موالی اور بہت ظالم ہے‘‘
وہ بچہ جو اپنے سوتیلے والد کے تشدد سے مر گیا ہے اور پاکستان کی پرنٹ میڈیا کو دے گیا اپنی وہ آخری تصویر جس میں اس کی پیشانی پر ہتھوڑے کی چوٹ کا نشان ہے۔ وہ چوٹ جو پوسٹ آفس کے اسٹیمپ کی طرح نظر آ رہی ہے۔ اس طرح وہ بچہ پارسل بن گیا اور وہاں لوٹ گیا جہاں سے آیا تھا۔
وہ بچہ جو ستاروں کی دنیا سے اترا تھا۔ اور دھرتی کے پھولوں سے کھیلنے آیا تھا۔ تتلیوں کے پیچھے بھاگنے آیا تھا۔ اپنی توتلی زبان سے لوگوں کو ہنسانے کے لیے آیا تھا۔ مگر وہ اکثر روتا رہتا تھا۔ جب سوتیلا باپ اسے مارتا اس کا چھوٹا سا دل جذبات سے بھر جاتا اور وہ اپنی ماں سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر نہیں کہہ پاتا۔ اس کے احساسات کسی کے سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ اب وہ اپنے ان کہے احساسات کے ساتھ ایک دو من مٹی کے تلے مدفون ہے!
وہ بچہ جس کا نام کامران تھا۔وہ کامران جس پر الیکٹرانک میڈیا کوئی ڈاکیومینٹری نہیں بنائے گی۔ جس کے قتل پر کوئی اعلی سطحی تفتیش نہیں ہوگی۔ جس کی تصویر کو پریس کلبوں کے سامنے رکھ کر موم بتیاں نہیں جلائی جائیں گی۔ کیوں کہ وہ غریب اور یتیم بچہ تھا۔جس کی ماں کے پاس کوئی زیور نہیں نہ سونے کا اور نہ تعلیم کا۔ اس کو تو ٹھیک سے بات کرنا تک نہیں آتی۔ وہ کیا بتائے گی ان دنوں کی داستان جن دنوں کے دوراں ایک نیم پاگل شخص اس کے بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ اب وہ اپنے بچ جانے والے بچوں کے درمیاں سب سے چھوٹے بیٹے کو نہیں دیکھ پائے گی تو اسے شدت سے رونا آئے گا مگر وہ اپنے آنسوؤں پر ضبط کرے گی۔ کیوں کہ بھلے ان پڑھ ہے مگر ایک ماں ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کے بچے اپنے چھوٹے بھائی کے قتل پر بہت افسردہ ہیں۔ مگر جب گرمیاں گذر جائیں گی اور ساحل سمندر سے سرد ہوائیں آئیں گی تب وہ ماں اپنے مقتول بیٹے کو یاد کرکے آنسو بہائے گی ۔ وہ آنسو جو بہت دھیرے دھیرے بہتے رہیں گے اور اس کی میلی رضائی میں جزب ہوتے رہیں گے۔
وہ عورت جس کا نام افشین ہے۔ اب اس کو ساری عمر اپنے ننھے پھول کی جدائی میں جلنا ہوگا۔ اس کے دوسرے بچے بڑے ہوتے رہیں گے ۔اقرا دوتین برس میں جوان ہوجائے گی۔ نعمان بہت جلد کام کرنے لگے گا۔ نمرہ گھر کو سنبھالنے لگے گی اور عدنان اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھنچی ہوئی تصویر کو دیکھتا اور سوچتا رہے گا کہ ان کا بھائی کہاں چلا گیا؟مگر کچھ عرصے کے بعد سب اپنی زندگی کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہوجائیں لیکن افشین کی آنکھوں میں اپنے چھوٹے کامران کی تصویر آنسوؤں کے جھولے میں ڈولتی رہے گی۔ وہ کبھی اپنی سہیلی سے دل کا درد کہے گی توکہے گی ورنہ چپ رہے گی۔کیوں کہ وہ کوئی اہل قلم خاتون نہیں ہے۔ وہ اس ظالم اور بے حس معاشرے کی مظلوم بیٹی اور غمزدہ ماں ہے۔ وہ اطالوی جرنلسٹ خاتون اوریانا فلاچی نہیں کہ اپنے مقتول بیٹے کے لیے ناول نما خط تحریر کرے اور اپنے دل کا سارا درد کاغذ پر رقم کرکے دنیا کو بتائے کہ وہ کس کرب سے گذر رہی ہے۔ اگر افشین ادیبہ ہوتی تو وہ محلے کے اسٹیشنری شاپ سے ایک کاپی لے آتی اور لکھنا شروع کرتی کہ:
’’کامران! کیسے ہو؟
مجھے معلوم ہے کہ تم خوش نہیں ہو۔ اپنی ماں سے بہت ناراض ہو۔ تم کو شکایت ہے کہ تمہاری ماں نے دوسری شادی کیوں کی؟ مگر تم کو معلوم ہے کہ تمہاری ماں غریب تھی۔ بے سہارا تھی۔تمہارے والد کی وفات کے بعد پانچ بچوں کا بوجھ اٹھانا اس کے لیے مشکل تھا۔ اس لیے اس نے شادی کی۔ مگر اس کو کیا معلوم کہ جس شخص کے ساتھ وہ شادی کر رہی ہے کہ شخص انسان کی صورت میں ایک شیطان ہے۔ اگر تمہاری ماں جانتی کہ شادی کے بعد وہ تمہیں قتل کردے گا تو میں خودکشی کرلیتی مگر شادی نہ کرتی!
کامران! تم اب بھی بہت کمسن ہو۔ لیکن تم بڑے بھی ہوتے تب بھی نہ سمجھ پاتے اس عورت کا درد جو بچپن سے اچھی زندگی کے خواب دیکھتی ہے۔ ایک پیار کرنے والے اور احساسات کو سمجھنے والے شخص سے شادی کے سپنے اسے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ایک عورت اس دنیا میں صرف اس لیے نہیں آتی کہ اس کے کوکھ سے بچے پیدا ہوں۔ وہ اس دنیا میں اس لیے بھی آتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ اس کی عزت کی جائے اور اس کو سمجھا جائے!کامران! تم تو جانتے ہو کہ تمہاری ماں کی کوکھ سے بچے تو پیدا ہوئے مگر وہ ساری زندگی عزت ؛ محبت اور اس اپنائیت کے لیے ترستی رہی جس اپنائیت کی وجہ سے دل کا بوجھ کم ہوجاتا ہے اور انسان بغیر اظہار کے بھی سمجھا جاتا ہے۔ مگر تمہاری ماں کو کبھی بھی نہ سمجھا گیا۔ وہ روتی رہتی تھی اور سب کو بلک بلک کر بتاتی تھی کہ عرفان نیم پاگل اور پورا وحشی ہے مگر اس کو ہمیشہ صبر کا مشورہ دیا گیا۔ اس طرح تمہاری ماں صبر کے ساتھ جبر برداشت کرتی رہی اور سوچتی رہی کہ یہ دکھ کے دن ختم ہوجائیں گے۔اس کو یقین تھا کہ جب اس کے بچے بڑے ہوجائیں گے تب وہ اپنی مرضی کی زندگی گذارے گی۔ کسی کی منت نہیں کرے گی۔ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے گی۔ تمہاری ماں عزت سے جینے کی منتظر تھی۔ مگر وہ حالات کی قیدی تھی۔ وہ نظر نہ آنے والے زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔مگر اس کو یقین تھا کہ یہ زنجیریں ایک دن ٹوٹ کر گرجائیں گی اور وہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ ساحل سمندر پر یادگار تصویر کھنچوائے گی اور اپنے گھر کے بڑے کمرے میں اس کو آویزاں کرے گی اور جب اس کے پاس مہمان آئیں گے تب ان کی اچھی تواضع کرنے کے بعد چمکتی آنکھوں کے ساتھ انہیں بتائے گی کہ ’’دکھوں کے پیچھے سکھ آتے ہیں۔ میں نے بچوں کے والد کی موت کے بعد بہت دکھ دیکھے مگر اب میں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ بہت خوش ہوں اور مجھے اپنے مرحوم شوہر عامر سے کوئی شکایت نہیں۔ اس نے مجھے بڑا گھر اور جائداد نہیں دی مگر پانچ بچے دیے اور ان بچوں کی وجہ سے میرا سر فخر سے بلند ہے!
کامران! کتنے خواب تھے تمہاری ماں کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں!! اب وہ سارے خواب قطرہ قطرہ کرکے بہہ گئے۔ اور میرے سب سے بڑے خواب تو تم تھے۔ تم جو سب میں چھوٹے اور سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ میں نے تمہارے بارے میں کتنا سوچا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے مگر تم کو اچھے اسکول میں تعلیم دلواؤں گی۔ تم کو تب تک تعلیم دلواتی رہوں گی جب تک تم تعلیم حاصل کرنا چاہو اور جب تم پڑھ لکھ کر اعلی درجے پر پہنچ جاؤ تب تمہاری شادی تمہارے پسند کے مطابق کرواؤں گی۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ ’’خواب صرف ٹوٹنے کے لیے ہوا کرتے ہیں‘‘ وہ چمکتے اور دمکتے خواب جو شیشوں سے بنتے ہیں۔ جب وہ ٹوٹتے ہیں تو انسان کو ساری زندگی اس شکستہ کانچ پر ننگے پیر چلنا پڑتا ہے۔
کامران! اب تمہاری ماں کے پیر زخمی ہیں۔ اب اس کی آنکھوں میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ خواب بن سکیں۔ اب یہ آنکھیں رونے کے لیے ہیں اور اب یہ ہاتھ تمہیں کھانا پکا کر کھلانے کے بجائے تمہارے لیے دعادینے کے لیے ہیں۔ میرے بچے! تم نہیں جانتے کہ دعا ماں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا ہے۔ ہر ماں بڑی خوشی سے اولاد کے لیے دعا مانگتی ہے۔ مگر جب اس کا بچہ مرجائے تب اس کے لیے دعا مانگتے ہوئے ایک ماں کی دل پر کیسی قیامت گذرتی ہے؟ تم نہیں جانتے کامران!!
مگر میری چھوڑو۔ اپنی بتاؤ! بتاؤ کہ تم کیسے ہو کامران!
میں جانتی ہوں کہ تم مجھ سے خوش نہیں ہو۔ بہت ناراض ہو مجھ سے۔ تم مجھ سے بھلے ناراض رہو۔ میں یہ خط تمہیں اس لیے نہیں لکھ رہی کہ تم مجھے معاف کردو۔ مگر اس خط کا مقصد صرف اتنا ہے کہ تم خوش رہو۔ جہاں بھی رہو مسکراتے رہو۔ بھلے اپنی ماں کو یاد مت کرو۔ مگر ہنستے رہو۔ تم ہنستے ہوئے بہت پیارے لگتے ہو!!‘‘
مگر ایسا معصوم سا خط بھی نہ لکھ پائے گی وہ ماں جو اب جینے کی سزا کاٹ رہی ہے۔وہ ماں جس کی زندگی کا روشن ستارہ موت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔اب وہ اندھیروں میں بسنے والی ایک ایسی ماں ہے جس کے لیے صرف راتیں ہی نہیں بلکہ جس کے لیے دن بھی تاریک ہیں اور رہیں گے!
اس معاشرے میں چوبیس گھنٹے چلنے والے چینلوں پر حقوق انساں اور حقوق نسواں کے حوالے سے کس قدر بکواس ہوتی رہتی ہے۔ میک اپ زدہ خواتین اپنی عمر کو قیمتی رنگ و خوشبو میں چھپا کر نہ معلوم کیا کچھ کہتی رہتی ہیں مگر جہاں وہ رہتی ہیں وہاں وہ ماحول نہیں جس ماحول میں ایک شخص علاج کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتا ہے اور پیچھے چھوڑ اجاتا ہے پانچ بچے اور ان بچوں کی ماں کے میکے والے اس عقرت کی مدد کرنے کے بجائے اس کو پھر سے دلہن بناتے ہیں اور اس کو حوالے کرتے ہیں اس شخص کے جو شخص نہ صرف اس پر بلکہ اس کے بچوں پر بھی تشدد کرتا ہے اور اس مشق ستم کے دوراں ایک دن اس کا سب سے چھوٹا بیٹا ہتھوڑے کی چوٹ لگنے سے مرجاتا ہے!!
مگر اس عورت کو بھی جینا پڑتاہے۔ اپنے دوسرے بچوں کے لیے!!
وہ عورت جو گرمیوں کے دنوں میں سردیوں کا انتظار کرتی ہے ۔ صرف اس لیے کہ وہ ایک کمرے والے گھر میں اپنے سر پر رضائی ڈال کر اپنے مرحوم بچے کی یاد میں رو سکے!
وہ عورت اگر تعلیم یافتہ ہوتی تو اپنے دل کا درد کم کرنے کے لیے اپنے مرجانے والے بچے کو ایک خط لکھتی اور اس خط کے ابتدا میں اس سے پوچھتی:
’’کیسے ہو کامران؟‘‘
اور اس کو یہ بھی لکھتی کہ:
’’مجھے معلوم ہے کہ تم خوش نہیں ہو۔ اپنی ماں سے بہت ناراض ہو۔ تم کو شکایت ہے کہ تمہاری ماں نے دوسری شادی کیوں کی؟ مگر تم کو معلوم ہے کہ تمہاری ماں غریب تھی۔ بے سہارا تھی۔تمہارے والد کی وفات کے بعد پانچ بچوں کا بوجھ اٹھانا اس کے لیے مشکل تھا۔ اس لیے اس نے شادی کی۔ مگر اس کو کیا معلوم کہ جس شخص کے ساتھ وہ شادی کر رہی ہے کہ شخص انسان کی صورت میں ایک شیطان ہے۔ اگر تمہاری ماں جانتی کہ شادی کے بعد وہ تمہیں قتل کردے گا تو میں خودکشی کرلیتی مگر شادی نہ کرتی!‘‘