Sunday 28 June 2015

فیس بک ۔ ۔ ۔ کتھارسس VS ڈیپریشن

فیس بک ۔ ۔ ۔ کتھارسس VS ڈیپریشن 


کل ایک افطار ڈنر کے بعد ہوٹل کے سموکنگ لاونج میں چند احباب کے ساتھ بیٹھا تھا ۔بات سوشل میڈیا کی چل نکلی ۔مخاطب ایم فل کر چکا تھا اور اب پی ایچ ڈی کے لئے سوشل میڈیا کی ایک جہت کو بطور عنوان منتخب کرنے کے بارے میں غور کر رہا تھا ۔ کافی باتیں ہوئیں ۔پھر اس نے سوال اٹھایا کہ:سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے ایشوز کی انتہا (Conclusion)کیا ہوگی؟
آیاکوئی ایسا سائبر قانون بن سکتا ہے جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے مواد کو قابل اعتماد بناسکے؟
میرا موقف تھا کہ سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک ایسے ہی رہے گی ۔یہاں جھوٹی سچی معلومات کا ریلا اسی شدت سے بہتا رہے گا ۔پھر کچھ مثالوں کے ساتھ اس کے مثبت پہلو بھی گنوائے ۔یہ ڈسکشن کافی اچھی رہی چونکہ بندہ بھی اچھا تھا ۔ویسے بھی میں اس مسئلے کے بارے میں فکر مند تھا۔میرا موقف تھا کہ سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک ایسے ہی رہے گی ۔یہاں جھوٹی سچی معلومات کا ریلا اسی شدت سے بہتا رہے گا ۔پھر کچھ مثالوں کے ساتھ اس کے مثبت پہلو بھی گنوائے ۔یہ ڈسکشن کافی اچھی رہی چونکہ بندہ بھی اچھا تھا ۔ویسے بھی میں اس مسئلے کے بارے میں فکر مند تھا۔اب سنئے۔۔۔۔!
میں ایک طویل عرصے سے فیس بک پر مختلف خیالات کے لوگوں کی پوسٹیں اور بحثیں دیکھ رہا ہوں ۔ صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطےسوشل میڈیا میرے مطالعے کا میدان بھی ہے ۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ مذہبی طبقہ اچانک اس فورم پر نمودار ہوا ۔انہیں اچانک احساس ہوا کہ جدید عہد کے ساتھ چلنے کے لئے فیس بک پر موجود ہونا بہت ضروری ہے ۔بہت سوں نے اسے دنیا میں خلافت کے احیاء کے لئے اہم وسیلہ کے طور پر اختیار کیا ۔کچھ اپنے اپنے پیروں ،مولویوں،ذاکروں اور مفتیوں کی پبلسٹی کے لئے یہاں آئے ۔ایک بڑا گروہ مسلکی بریگیڈ بنا کر فیس بک پر جلوہ افروز ہوا ۔پھر کیا تھا سرگوشوں سے ابتداء ہوئی اور بات ایک دوسرے کے گلچھڑے اڑانے تک جا پہنچی اور اس پر بھی بس نہیں ہوئی ،صورتحال مزید شدت کی جانب بڑھتی جارہی ہے ۔
میں ایسی کئی اچھی بری پوسٹیں دیکھتا رہتا ہوں ۔بعض اوقات باہم متصادم آراء بھی پڑھ لیتا ہوں۔تبصرہ مگر نہیں کرتا کیونکہ دلدل سے گھبراتا ہوں ۔یہی وجہ ہے اطمینان سے اپنے خیالات کا اظہار کر نے کے بعد متعلقہ احباب سے بات چیت کر کے فارغ ہو جاتا ہوں ۔
گزشتہ دو تین دن سے فیس بک پر معمول سے زیادہ وقت گزارا ۔صحت مند ابحاث کی تلاش میں رہا اور کچھ مل بھی گئیں ۔ لیکن مذہبی نوجوانوں کی پوسٹوں پر تُوتُکار،ابے اوئے دیکھ کر دل بہت دکھی ہو گیا ۔مجھے لگا کہ فرقہ پرست گلیوں کوچوں سے نکل کر اب فیس بک پر آ بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کا منہ نوچ رہے ہیں ۔
میرا خیال ہے کہ فیس بک یا کوئی بھی سوشل سائٹ کتھارسس اور احباب سے خوش گوار باتوں اور یادوں کو شیئر کرنے کا فورم ہے ۔ آپ اس فورم سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے مزید بہتر بنا سکتے ہیں ۔آپ بات چیت کے لئے ڈھنگ کے افراد تلاش کر سکتے ہیں ۔ علم ودانش کی بات ہو سکتی ہے ۔
کچھ افراد تو یہاں کتھارسس کے لئے آئے تھے مگر فیس بک ان کے ساتھ چپک کر رہ گئی ۔وہ گپ شپ کر کے ڈیپریشن سے نجات پانا چاہتے تھے مگر مزید ڈیپریس ہو گئے ۔ میرا خیال ہے ان ''کچھ لوگوں'' میں جو اچھے لوگ ہیں(اور انہیں خود معلوم ہے کہ وہ اچھے ہیں) انہیں سوچنا ہو گا ۔انہیں فیس بک پر ہر لمحہ موجود رہنے کی عادت سے چھٹکارہ پا کر اس کے محدود مگرصحت مند استعمال کی طرف توجہ دینی ہوگی ۔ میں فیس بک چھوڑ دینے کی بات نہیں کر رہا ۔آپ ضرور موجود رہیے مگر اپنی ذہنی صحت کے تحفظ کے احساس کے ساتھ ۔
رب راکھا!
فرحان فانی
چھبیس جون دو ہزار پندرہ ۔رات کا تیسرا پہر
لاہور

No comments:

Post a Comment