Thursday 26 November 2015


پیرس پر ٹوٹنے والی قیامت کے دلدوز مناظر

فرحان فانی  اتوار 22 نومبر 2015
خوشبوؤں کے شہر پیرس میں دنیا بھر سے سیاح لاکھوں کی تعداد میں یہاں کے مناظر سے حظ اٹھانے کے لیے موجود ہوتے ہیں:فوٹو : فائل
پیرس میں جمعے کی رات ہونے والے دہشت ناک حملوں نے یورپ سمیت پوری دنیا میں خوف کی فضاء پیدا کر دی ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اسے ایک بڑے سانحے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر سامنے آنے والے عینی شاہدین کے تاثرات پڑھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ ان دہشت گرد حملوں نے لوگوں کو نفسیاتی طور پر کس حد تک توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک ریڈیو رپورٹرجیولین حملے کے وقت اس کنسرٹ ہال میں موجود تھا جہاں سب سے زیادہ لوگ قتل ہوئے۔ جیولین نے اپنی آنکھوں کے سامنے 25کے قریب لوگ گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھے۔
جیولین نے اس دورانئے کو ’’زندگی کے خوفناک ترین 10 منٹ‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک نوجوان الیگزینڈر بمز اسٹیڈیم کے گیٹ پر تھا کہ باہر ہجوم میں یکے بعد دیگرے دھماکے ہونے لگے۔ الیگزینڈر نے گرد و غبار اور دھوئیں کے بادلوں میں ایک انسانی بازو اوپر سے نیچے گرتا دیکھا تو وہ سکتے میں آ گیا۔ ایک لڑکی جس کے پاؤں میں گولی لگی ہے اسے حملہ آور کے یہ الفاظ یاد رہ گئے کہ ’’تم لوگ جو کچھ شام میں کر رہے ہو اب اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘غرض اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو مرتے دیکھنے والا ہر شخص ایک الگ ہی روداد سنا تا ہے۔ درد مگر سب میں مشترک ہے۔
خوشبوؤں کے شہر پیرس میں دنیا بھر سے سیاح لاکھوں کی تعداد میں یہاں کے مناظر سے حظ اٹھانے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ ان حملوں کے بعد اب سیاح پیرس کا سفر اختیار کرنے میں احتیاط برتنے لگے ہیں۔ حملوں کے بعد دنیا بھر کے حصص بازاروں میں بھی شدید مندی دیکھی گئی۔ یورپی ممالک میں سوگ کی سی کیفیت ہے۔
ادھر امریکامیں وائٹ ہاؤس پر امریکی پرچم جمعرات تک سرنگوں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک نے بھی ان دہشت گرد حملوں کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں ان کی مذمت کی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے دنیا بھر میں اپنے صارفین کو اپنی ڈسپلے پکچرز(DP’s) کے ساتھ فرانس کا پرچم لگانے کی ترغیب دی ہے جس کا مقصد پیرس میں جان کی بازی ہار جانے والے افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے۔ دوسری جانب مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ’’پیرس اٹیکس‘‘ اور ’’مسلمز آر ناٹ ٹیررسٹ ‘‘ کا ہیش ٹیگ اونچی سطح پر رہا۔ اسی طرح دنیا بھر کے جرائد اور اخبارات میں اس المناک سانحے کے حوالے سے ایک بحث جاری ہے۔
فرانس گو کہ ایک پرکشش ملک ہے مگر وہاں پر پُرتشدد واقعات کوئی نئی بات نہیں۔ فرانس پر یہ حملے قریب 200سال پہلے سے وقفوں وقفوں سے ہو رہے ہیں۔ فرانس کے فوجی اور سیاسی رہنما نپولین بونا پارٹ پر 1800ء کے اواخرمیں جبکہ بادشاہ لوئس فلپ پر 1858ء میںحملے کیے گئے جو ناکام ہوئے۔ 1961ء میں چارلس ڈیگال پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اس کے ٹھیک ایک برس بعد 1962ء میں فرانس کی وزارت خارجہ کے دفاتر کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔اس کے بعدسے اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق تین درجن حملے ہوچکے ہیں۔
رواں برس جنوری میں چارلی ہیبڈو (توہین آمیز خاکے شائع کرنے والا میگزین) کے دفتر پر ہونے والے حملے کو فرانس میں ماضی قریب میں پیش آنے ولا دہشت گردی کا بڑا واقعہ قرار دیا جاتا ہے لیکن حالیہ حملوں کو فرانس کی تاریخ کے سفاک ترین واقعات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ حالیہ حملوں کے بعد پیرس شہر میں 71 سال بعدکرفیو نافذ کیا گیا جبکہ اس سے قبل 1944ء میں کرفیو لگایا گیا تھا۔
ان حملوں کے بعد سامنے آنے والے مناظر میں دکھ و الم نمایاں ہے۔ کٹے پھٹے جسم،ادھ جلے کپڑے ،بکھرا ہوا سازوسامان اوردیواروں سے چپکا لہو یہ سب ماحول کو مزید دہشت ناک بنا رہے ہیں۔ بعض مناظر میں لوگ اشکبار آنکھوں کے ساتھ دھماکوں کی جگہوں پر پھول چڑھا کر اور شمعیں جلا کر اپنے پیاروں کو یاد کر تے نظر آتے ہیں۔ نسبتاً پرامن تصور کیے جانے والے ممالک میں اچانک پیش آنے والے یہ واقعات وہاں کی زندگی کو ہر جہت سے متاثر کر تے ہیں۔ پیرس میں بھی لوگ اب ایک مستقل خوف کے زیر اثر ہیں۔ ان کے شگفتہ چہروں پر اب پژمردگی کے آثار نظر آتے ہیں۔
غیر ملکی ابلاغی اداروں کے دعوؤں کے مطابق عراق و شام میں متحرک شدت پسند تنظیم داعش نے ان حملوںکی ذمہ داری قبول کی ہے۔شدت پسند تنظیم داعش اپنا تعارف مذہب اسلام کے حوالے سے کراتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں بسنے والے مسلمان حالیہ حملوں کے بعد سے گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں کیونکہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان حملوں کے بعد وہاں کی مسلمان کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کی وزات داخلہ نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب پوپ فرانسس نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حالات تیسری جنگ عظیم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔یہ سب چیزیں صورت حال کو مزید تشویش ناک بنا رہی ہیں۔
دنیا میں آراء و افکار کا اختلاف کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔کسی بھی گروہ کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مخالف نظریات کے حامل لوگوں سے جینے کا حق ہی چھین لے۔پیرس کے حالیہ حملوں میں اپنی جانیں گنوا دینے والے بے گناہوں کو انسانیت کا درد رکھنے والا ہر شخص کسی بھی نسل،گروہ،یا مذہب کے خانے میں ڈالے بنا محض انسانی برادری کے ارکان کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصروں اور مباحثوں سے عیاں ہے کہ عام لوگوں کی اکثریت اس واقعے کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم کے طور پر دیکھ رہی ہے اور یہی بہتر رویہ ہے۔
مذہبی،علاقائی یا نسلی تعصبات نے انسانیت کو قتل و غارت گری کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پیرس کے سانحے میں قتل ہونے والے افراد میں ہر عمر کے اور مختلف مذاہب سے متعلق لوگ نشانہ بنے ۔حملہ آوروں کی خود کش جیکٹوں میں بھرا بارود اور بندوقوں سے نکلنے والی گولیاں انسانی جسموں کے بغیر کسی تفریق کے چیتھڑے اڑا رہی تھیں۔ لمحۂ موجود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم سب انسانیت کے خلاف کئے جانے والے اس قسم کی سفاکانہ کارروائیوں کی کھلے الفاظ میں مذمت کریں اور ہر طرح کی دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کریں۔

No comments:

Post a Comment