Tuesday 7 August 2018

کپتان بدل پائیں گے پاکستان؟




کالم | فرحان خان

پاکستان کی تاریخ کے گیارھویں عام انتخابات گزشتہ ماہ کی 25تاریخ کو ہو گئے ۔ جمہوریت کمزور تر سہی مگر تسلسل قائم ہو گیا ۔ توقع کے مطابق عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ووٹ حاصل کرنے کے اعتبار سے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے ۔ عمران خان کا 22سال پر محیط سیاسی سفر انہیں اقتدار کے ایوان تک لے آیاہے ۔ اس طویل سفر کے بیچ مایوسیاں تھیں ،ناکامیاں تھیں اوران کی شخصیت و فکرکے بے شمار تضادات تھے ۔ شروع میں پاکستان کے کسی بھی روایتی سیاست کار نے انہیں سنجیدہ نہ لیا ۔ اس کی وجہ عمران خان کا ’’پلے بوائے‘‘ قسم کا پس منظر تھا ۔ عمران خان لیکن پیہم جٹے رہے ۔ اس دوران ان کے خیالات اورپیرائیہ اظہار میں کئی طرح کی تبدیلیاں بھی آئیں ۔1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد وہ ہیرو تو تھے ہی ۔ اس کے بعد ایک بڑا اور جدید کینسر ہسپتال بھی ان کے کریڈٹ پرآ چکا تھا۔ عمران خان نے ان دونوں چیزوں کو اپنی سیاست آگے بڑھانے کے لیے خوب استعمال کیا ۔ ان کی تحریک میں زیادہ زور 2013ء کے انتخابات کے بعد آیا ،جب انہوں نے دھاندلی کے الزام کی بنیاد پرمسلم لیگ نواز کی حکومت کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے اور لانگ مارچ کیے ۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت عمران خان اقتدار کے بہت قریب پہنچ گئے تھے لیکن مسلم لیگ نواز کی حکومت اور حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں نے ہم آہنگ ہوکر ان کا یہ خواب پورا نہ ہونے دیا۔لیکن یہ ضرور ہوا کہ عمران خان خود کو اس عرصے میں ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت باور کروانے میں کامیاب ہو گئے۔



گزشتہ پانچ سال کے دوران ان کے پاس صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت بھی تھی، جہاں وہ اپنے ترقی وتبدیلی کے ایجنڈے کا تجربہ کر سکتے تھے ، کسی حد تک انہوں نے کیا بھی ۔یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ عمران خان کی سیاسی گاڑی کی رفتار بڑھانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کافی کردار رہا ہے ۔ حالیہ الیکشن سے قبل کے ماحول نے اس تأثر کی تصدیق کی ہے۔


الیکشن 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف نے وفاق ، پوٹھوہار ریجن، صوبہ پختون خوا اور ملک کے سب سے بڑے اور گنجان آباد شہر کراچی میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے ۔ سب سے مضبوط اور اقتدار کے تعلق سے فیصلہ کن سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب میں بھی تحریک انصاف نے سیاسی نقشہ کافی حد تک بدل دیا ۔ پنجاب میں گزشتہ 10برس سے مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی اور ترقیاتی کاموں (انفرااسٹرکچر کی بہتری)کے حوالے سے یہ صوبہ کافی نمایاں رہا ہے ۔ خیال یہ تھا کہ مسلم لیگ نواز کو اس صوبے میں شکست دینا ناممکن ہو گا ۔ لیکن جنوبی و شمالی پنجاب میں مکمل جبکہ وسطی پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو کافی بڑا دھچکا لگانے میں تحریک انصاف کامیاب رہی ۔ فیصل آباد جو مسلم لیگ نوازکا گڑھ شمار ہوتا تھا، اب کی بار وہاں کی 10 میں سے آٹھ قومی اسمبلی کی نشستیں تحریک انصاف کی جھولی میں آ گریں،(یہ ان دو نشستوں کے سمیت ہے جو چند دن میں تحریک انصاف کو مل جائیں گی)، لاہور جو مسلم لیگ نواز کامضبوط ترین سیاسی قلعہ تھا، وہاں بھی تحریک انصاف قومی اسمبلی کی چار نشستیں جیت گئی ۔


عمران خان خود کراچی ، اسلام آباد، لاہور ، میاں والی اورپشاورپانچ نشستوں سے میدان میں تھے اور وہ پانچوں سیٹیں جیت گئے ۔ اس طرح بیک وقت پانچ جگہوں نے فتح یاب ہونے والے وہ پہلے پاکستانی سیاسی رہنما بھی بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے کراچی سے بھی درجن بھر نشستیں حاصل کر کے اس صوبے میں بھی اپنی مؤثر جڑیں گاڑ لی ہیں اور ماضی میں اس شہر کی مالک سمجھی جانی والی ایم کیوایم کی شکست ریخت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو کافی حد تک پورا کیا ہے۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی سب سے آگے ہے لیکن اس کا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد فطری ہے ۔ اس کی بڑی وجہ ان دونوں پارٹیوں کی یکساں ’’سرپرستی‘‘ ہے ۔ رہا صوبہ پختون خوا تو وہاں تحریک انصاف نے اب کی بار مکمل کلین سوئیپ کیا ہے ۔ اس صوبے کے قومی سطح کے گھاگ سیاست دان جن میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی کے سراج الحق ، عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی خان شامل ہیں ، شکست سے دوچار ہوئے ۔ اس طرح بہت مدت بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک ایسی سیاسی جماعت ابھری ہے جس کی قابلِ ذکر نمائندگی کم وبیش سارے ملک میں موجود ہے۔ ماضی میں یہ معاملہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ رہا ہے ،جو اب گزشتہ کئی برس سے صرف صوبہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ اب کی بار بھی پیپلز پارٹی ہی سندھ کی بڑی جماعت ہے اور وہاں اس کی جماعت کی مسلسل تیسری حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔


مذہبی جماعتوں میں سب سے نمایاں اتحاد متحدہ مجلس عمل تھا جس میں جمعیت علمائے اسلام ، جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی سیاسی جماعتیں شامل تھی ۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل ختم نبوت قانون سے جڑے تنازع کی کوکھ سے ابھرنے والی تحریک لبیک اور کالعدم جماعۃ الدعوۃ کی سیاسی نمائندہ جماعت اللہ اکبر تحریک بھی الیکشن کے دنگل میں موجود تھی ۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے مجموعی طور پر نصف کروڑ کے قریب ووٹ حاصل توکیے لیکن کسی بھی جماعت نے بڑی کامیابی حاصل نہیں کی ۔ متحدہ مجلس عمل اب کی بار داخلی تضادات اورکوئی پرکشش نعرہ نہ ہونے کی باعث ماضی کی نسبت بہت کم نشستیں حاصل کر سکی ۔ تحریک لبیک نے سندھ کی صوبائی اسمبلی میں البتہ دو نشستیں جیت لیں جبکہ اللہ اکبر تحریک مکمل طور پر ناکام ٹھہری ۔ حالیہ الیکشن کے نتائج نے پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے مستقبل پر بہت سے سوالات قائم کر دیے ہیں۔ یہ تأثر اب مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ لوگ اقتدارکے حوالے سے مذہبی سیاسی جماعتوں کو زیادہ اہل نہیں سمجھتے ۔ دوسرے یہ تأثر بھی پیدا ہوا ہے کہ مذہبی جذبات کی بنیاد پر کھڑی کی گئیں سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ بڑی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم کر کے اپنی منشا کے نتائج کے لیے استعمال کرتی ہے۔اس سے زیادہ ان کی اہمیت نہیں ہے۔


اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ،تحریک انصاف وفاق میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے سرتوڑ تگ ودو کر رہی ہے ۔ اس مقصد کے لیے انہیں342کے ایوان میں 137جنرل نشستوں کے ساتھ سادہ اکثریت درکار ہے ۔تحریک انصاف نے ابتدائی طور پر 112کے آس پاس قومی اسمبلی کی نشستیں جیتی تھیں لیکن اب ان کے قافلے میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار اور چھوٹے حجم کی سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہو رہے ہیں۔ خیال یہی ہے کہ جلد تحریک انصاف مطلوبہ عدد مکمل کر لے گی اور عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں گے ۔ تحریک انصاف اس وقت مرکز کے علاوہ پختون خوا اور سب سے طاقتور سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے ۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ابتدائی طور پر مسلم لیگ نواز ہی سب سے بڑی جماعت تھی ، لیکن اب درجنوں لوگ تحریک انصاف کے قافلے میں شامل ہو ئیہیں ۔ اس طرح مسلم لیگ نواز نمبر گیم میں پیچھے رہتی دکھائی دے رہی ہے ۔ بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنائے گی جبکہ سندھ پر پیپلز پارٹی راج کرے گی ۔


یہ تو تھی جوڑ توڑ کی صورت حال ، اب سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے مقبول ترین نعرے ’’تبدیلی آ نہیں رہی ، تبدیلی آ چکی ہے‘‘ کو عملی جامہ پہنا سکے گی یا نہیں؟یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے ۔ تحریک انصاف گو کہ عددی اعتبار سے اس وقت باقی سیاسی جماعتوں سے آگے ہے لیکن پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے لیے اس کے ساتھ جو آزاد امیدوار اور دیگر پارٹیوں کے لوگ جڑ رہے ہیں ، وہ ضرورت کے اس سمے اپنے مطالبات منوا رہے ہیں جو آئندہ دنوں میں تبدیلی کے خواب کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے ۔ دوسرے یہ کہ عمران خان کی جماعت کے لیے الیکشن سے قبل اسٹیبلشمنٹ اور بعض دیگر طاقتور اداروں نے میدان ہموار ضرور کیا لیکن ان کا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں تھا کہ پاکستان میں کوئی مضبوط(بھاری اکثریت حاصل کرنے والی)جماعت بر سراقتدار آئے ۔ آخری تجزیے میں عمران خان کی حکومت ایک کمزور حکومت ہوگی، جسے اپنے فیصلوں میں طاقت کے غیر جمہوری مراکز کے دباؤ کا سامنا رہے گا ۔



اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان کا پارلیمان میں مقابلہ اب کی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز جیسی پارلیمانی سیاست کا طویل تجربہ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی متحدہ اپوزیشن سے ہو گا۔ تبدیلی کے خواب کی تکمیل سے جڑی ممکنہ قانون سازی تحریک انصاف کے لیے بہت مشکل ہو گی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایوان بالا (سینیٹ )میں اس وقت مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی ہی کی اکثریت ہے ۔ خارجہ اور سیکیورٹی امور سے متعلق فیصلوں میں عمران خان کوئی نمایاں پیش رفت کریں گے ، یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا ۔ پاکستان کی معیشت کے حالات دِگر گوں ہیں ، بیرونی قرضوں کا دباؤ بہت زیادہ ہے ، بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ کرنسی کی قدر مسلسل گرواٹ کا شکار ہے۔ عمران خان اپنی ماضی قریب کی تقریروں میں کشکول توڑ دینے کی بات کرتے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں بھی کشکول لے کر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینی پڑے گی ۔ جہاں تک ملک کے اداروں خاص طور پر صحت ، تعلیم، پولیس اور انتظامی شعبے میں اصلاحات کا تعلق ہے تو یہاں عمران خان کسی حد تک بہتری لا سکتے ہیں ، انہیں اس جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے۔
(مکتوب پاکستان ،ہفت روزہ نوائے جہلم، سری نگر ، جموں کشمیر )

No comments:

Post a Comment