Thursday 11 June 2015

اعجاز منگی! یہ درد کے ٹکڑے کیسے بکھیرتے ہو قرطاس پر؟


کامران! کیسے ہو؟
اعجاز منگی
وہ بچہ اب کورنگی کے قبرستان کی ایک چھوٹی سی قبر بن گیا ہے۔ وہ قبر جس پر سنگ مرمر کا کتبہ تو کیا وہ سرخ پھول بھی نہیں جو سورج کی کرنوں سے سیاہ ہوجاتے ہیں اور ہلکی سی ہوا میں اڑ جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتی ہے وہ اداس خوشبو جو اس خاموش بستی کا پتہ دیتی ہے جہاں درد دفن کیے جاتے ہیں!
وہ بچہ اب ایک غریب محلے کی گلیوں میں چلتا ہوا نظرنہیں آئے گا۔ وہ بچہ اب دوکانوں پر کوئی چیز لینے نہیں جائے گا۔وہ بچہ جس کے بارے میں کوئی ٹھیلے والا کسی واقف گاہک کو بتاتا تھا کہ ’’یہ یتیم بچہ ہے۔ اس کا والد بہت اچھا انسان تھا۔ بیماری کی وجہ سے مر گیا۔ اس کی ماں نے جس شخص سے دوسری شادی کی ہے وہ نکما؛ موالی اور بہت ظالم ہے‘‘
وہ بچہ جو اپنے سوتیلے والد کے تشدد سے مر گیا ہے اور پاکستان کی پرنٹ میڈیا کو دے گیا اپنی وہ آخری تصویر جس میں اس کی پیشانی پر ہتھوڑے کی چوٹ کا نشان ہے۔ وہ چوٹ جو پوسٹ آفس کے اسٹیمپ کی طرح نظر آ رہی ہے۔ اس طرح وہ بچہ پارسل بن گیا اور وہاں لوٹ گیا جہاں سے آیا تھا۔
وہ بچہ جو ستاروں کی دنیا سے اترا تھا۔ اور دھرتی کے پھولوں سے کھیلنے آیا تھا۔ تتلیوں کے پیچھے بھاگنے آیا تھا۔ اپنی توتلی زبان سے لوگوں کو ہنسانے کے لیے آیا تھا۔ مگر وہ اکثر روتا رہتا تھا۔ جب سوتیلا باپ اسے مارتا اس کا چھوٹا سا دل جذبات سے بھر جاتا اور وہ اپنی ماں سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر نہیں کہہ پاتا۔ اس کے احساسات کسی کے سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ اب وہ اپنے ان کہے احساسات کے ساتھ ایک دو من مٹی کے تلے مدفون ہے!
وہ بچہ جس کا نام کامران تھا۔وہ کامران جس پر الیکٹرانک میڈیا کوئی ڈاکیومینٹری نہیں بنائے گی۔ جس کے قتل پر کوئی اعلی سطحی تفتیش نہیں ہوگی۔ جس کی تصویر کو پریس کلبوں کے سامنے رکھ کر موم بتیاں نہیں جلائی جائیں گی۔ کیوں کہ وہ غریب اور یتیم بچہ تھا۔جس کی ماں کے پاس کوئی زیور نہیں نہ سونے کا اور نہ تعلیم کا۔ اس کو تو ٹھیک سے بات کرنا تک نہیں آتی۔ وہ کیا بتائے گی ان دنوں کی داستان جن دنوں کے دوراں ایک نیم پاگل شخص اس کے بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ اب وہ اپنے بچ جانے والے بچوں کے درمیاں سب سے چھوٹے بیٹے کو نہیں دیکھ پائے گی تو اسے شدت سے رونا آئے گا مگر وہ اپنے آنسوؤں پر ضبط کرے گی۔ کیوں کہ بھلے ان پڑھ ہے مگر ایک ماں ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کے بچے اپنے چھوٹے بھائی کے قتل پر بہت افسردہ ہیں۔ مگر جب گرمیاں گذر جائیں گی اور ساحل سمندر سے سرد ہوائیں آئیں گی تب وہ ماں اپنے مقتول بیٹے کو یاد کرکے آنسو بہائے گی ۔ وہ آنسو جو بہت دھیرے دھیرے بہتے رہیں گے اور اس کی میلی رضائی میں جزب ہوتے رہیں گے۔
وہ عورت جس کا نام افشین ہے۔ اب اس کو ساری عمر اپنے ننھے پھول کی جدائی میں جلنا ہوگا۔ اس کے دوسرے بچے بڑے ہوتے رہیں گے ۔اقرا دوتین برس میں جوان ہوجائے گی۔ نعمان بہت جلد کام کرنے لگے گا۔ نمرہ گھر کو سنبھالنے لگے گی اور عدنان اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھنچی ہوئی تصویر کو دیکھتا اور سوچتا رہے گا کہ ان کا بھائی کہاں چلا گیا؟مگر کچھ عرصے کے بعد سب اپنی زندگی کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہوجائیں لیکن افشین کی آنکھوں میں اپنے چھوٹے کامران کی تصویر آنسوؤں کے جھولے میں ڈولتی رہے گی۔ وہ کبھی اپنی سہیلی سے دل کا درد کہے گی توکہے گی ورنہ چپ رہے گی۔کیوں کہ وہ کوئی اہل قلم خاتون نہیں ہے۔ وہ اس ظالم اور بے حس معاشرے کی مظلوم بیٹی اور غمزدہ ماں ہے۔ وہ اطالوی جرنلسٹ خاتون اوریانا فلاچی نہیں کہ اپنے مقتول بیٹے کے لیے ناول نما خط تحریر کرے اور اپنے دل کا سارا درد کاغذ پر رقم کرکے دنیا کو بتائے کہ وہ کس کرب سے گذر رہی ہے۔ اگر افشین ادیبہ ہوتی تو وہ محلے کے اسٹیشنری شاپ سے ایک کاپی لے آتی اور لکھنا شروع کرتی کہ:
’’کامران! کیسے ہو؟
مجھے معلوم ہے کہ تم خوش نہیں ہو۔ اپنی ماں سے بہت ناراض ہو۔ تم کو شکایت ہے کہ تمہاری ماں نے دوسری شادی کیوں کی؟ مگر تم کو معلوم ہے کہ تمہاری ماں غریب تھی۔ بے سہارا تھی۔تمہارے والد کی وفات کے بعد پانچ بچوں کا بوجھ اٹھانا اس کے لیے مشکل تھا۔ اس لیے اس نے شادی کی۔ مگر اس کو کیا معلوم کہ جس شخص کے ساتھ وہ شادی کر رہی ہے کہ شخص انسان کی صورت میں ایک شیطان ہے۔ اگر تمہاری ماں جانتی کہ شادی کے بعد وہ تمہیں قتل کردے گا تو میں خودکشی کرلیتی مگر شادی نہ کرتی!
کامران! تم اب بھی بہت کمسن ہو۔ لیکن تم بڑے بھی ہوتے تب بھی نہ سمجھ پاتے اس عورت کا درد جو بچپن سے اچھی زندگی کے خواب دیکھتی ہے۔ ایک پیار کرنے والے اور احساسات کو سمجھنے والے شخص سے شادی کے سپنے اسے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ایک عورت اس دنیا میں صرف اس لیے نہیں آتی کہ اس کے کوکھ سے بچے پیدا ہوں۔ وہ اس دنیا میں اس لیے بھی آتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ اس کی عزت کی جائے اور اس کو سمجھا جائے!کامران! تم تو جانتے ہو کہ تمہاری ماں کی کوکھ سے بچے تو پیدا ہوئے مگر وہ ساری زندگی عزت ؛ محبت اور اس اپنائیت کے لیے ترستی رہی جس اپنائیت کی وجہ سے دل کا بوجھ کم ہوجاتا ہے اور انسان بغیر اظہار کے بھی سمجھا جاتا ہے۔ مگر تمہاری ماں کو کبھی بھی نہ سمجھا گیا۔ وہ روتی رہتی تھی اور سب کو بلک بلک کر بتاتی تھی کہ عرفان نیم پاگل اور پورا وحشی ہے مگر اس کو ہمیشہ صبر کا مشورہ دیا گیا۔ اس طرح تمہاری ماں صبر کے ساتھ جبر برداشت کرتی رہی اور سوچتی رہی کہ یہ دکھ کے دن ختم ہوجائیں گے۔اس کو یقین تھا کہ جب اس کے بچے بڑے ہوجائیں گے تب وہ اپنی مرضی کی زندگی گذارے گی۔ کسی کی منت نہیں کرے گی۔ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے گی۔ تمہاری ماں عزت سے جینے کی منتظر تھی۔ مگر وہ حالات کی قیدی تھی۔ وہ نظر نہ آنے والے زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔مگر اس کو یقین تھا کہ یہ زنجیریں ایک دن ٹوٹ کر گرجائیں گی اور وہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ ساحل سمندر پر یادگار تصویر کھنچوائے گی اور اپنے گھر کے بڑے کمرے میں اس کو آویزاں کرے گی اور جب اس کے پاس مہمان آئیں گے تب ان کی اچھی تواضع کرنے کے بعد چمکتی آنکھوں کے ساتھ انہیں بتائے گی کہ ’’دکھوں کے پیچھے سکھ آتے ہیں۔ میں نے بچوں کے والد کی موت کے بعد بہت دکھ دیکھے مگر اب میں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ بہت خوش ہوں اور مجھے اپنے مرحوم شوہر عامر سے کوئی شکایت نہیں۔ اس نے مجھے بڑا گھر اور جائداد نہیں دی مگر پانچ بچے دیے اور ان بچوں کی وجہ سے میرا سر فخر سے بلند ہے!
کامران! کتنے خواب تھے تمہاری ماں کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں!! اب وہ سارے خواب قطرہ قطرہ کرکے بہہ گئے۔ اور میرے سب سے بڑے خواب تو تم تھے۔ تم جو سب میں چھوٹے اور سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ میں نے تمہارے بارے میں کتنا سوچا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے مگر تم کو اچھے اسکول میں تعلیم دلواؤں گی۔ تم کو تب تک تعلیم دلواتی رہوں گی جب تک تم تعلیم حاصل کرنا چاہو اور جب تم پڑھ لکھ کر اعلی درجے پر پہنچ جاؤ تب تمہاری شادی تمہارے پسند کے مطابق کرواؤں گی۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ ’’خواب صرف ٹوٹنے کے لیے ہوا کرتے ہیں‘‘ وہ چمکتے اور دمکتے خواب جو شیشوں سے بنتے ہیں۔ جب وہ ٹوٹتے ہیں تو انسان کو ساری زندگی اس شکستہ کانچ پر ننگے پیر چلنا پڑتا ہے۔
کامران! اب تمہاری ماں کے پیر زخمی ہیں۔ اب اس کی آنکھوں میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ خواب بن سکیں۔ اب یہ آنکھیں رونے کے لیے ہیں اور اب یہ ہاتھ تمہیں کھانا پکا کر کھلانے کے بجائے تمہارے لیے دعادینے کے لیے ہیں۔ میرے بچے! تم نہیں جانتے کہ دعا ماں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا ہے۔ ہر ماں بڑی خوشی سے اولاد کے لیے دعا مانگتی ہے۔ مگر جب اس کا بچہ مرجائے تب اس کے لیے دعا مانگتے ہوئے ایک ماں کی دل پر کیسی قیامت گذرتی ہے؟ تم نہیں جانتے کامران!!
مگر میری چھوڑو۔ اپنی بتاؤ! بتاؤ کہ تم کیسے ہو کامران!
میں جانتی ہوں کہ تم مجھ سے خوش نہیں ہو۔ بہت ناراض ہو مجھ سے۔ تم مجھ سے بھلے ناراض رہو۔ میں یہ خط تمہیں اس لیے نہیں لکھ رہی کہ تم مجھے معاف کردو۔ مگر اس خط کا مقصد صرف اتنا ہے کہ تم خوش رہو۔ جہاں بھی رہو مسکراتے رہو۔ بھلے اپنی ماں کو یاد مت کرو۔ مگر ہنستے رہو۔ تم ہنستے ہوئے بہت پیارے لگتے ہو!!‘‘
مگر ایسا معصوم سا خط بھی نہ لکھ پائے گی وہ ماں جو اب جینے کی سزا کاٹ رہی ہے۔وہ ماں جس کی زندگی کا روشن ستارہ موت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔اب وہ اندھیروں میں بسنے والی ایک ایسی ماں ہے جس کے لیے صرف راتیں ہی نہیں بلکہ جس کے لیے دن بھی تاریک ہیں اور رہیں گے!
اس معاشرے میں چوبیس گھنٹے چلنے والے چینلوں پر حقوق انساں اور حقوق نسواں کے حوالے سے کس قدر بکواس ہوتی رہتی ہے۔ میک اپ زدہ خواتین اپنی عمر کو قیمتی رنگ و خوشبو میں چھپا کر نہ معلوم کیا کچھ کہتی رہتی ہیں مگر جہاں وہ رہتی ہیں وہاں وہ ماحول نہیں جس ماحول میں ایک شخص علاج کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتا ہے اور پیچھے چھوڑ اجاتا ہے پانچ بچے اور ان بچوں کی ماں کے میکے والے اس عقرت کی مدد کرنے کے بجائے اس کو پھر سے دلہن بناتے ہیں اور اس کو حوالے کرتے ہیں اس شخص کے جو شخص نہ صرف اس پر بلکہ اس کے بچوں پر بھی تشدد کرتا ہے اور اس مشق ستم کے دوراں ایک دن اس کا سب سے چھوٹا بیٹا ہتھوڑے کی چوٹ لگنے سے مرجاتا ہے!!
مگر اس عورت کو بھی جینا پڑتاہے۔ اپنے دوسرے بچوں کے لیے!!
وہ عورت جو گرمیوں کے دنوں میں سردیوں کا انتظار کرتی ہے ۔ صرف اس لیے کہ وہ ایک کمرے والے گھر میں اپنے سر پر رضائی ڈال کر اپنے مرحوم بچے کی یاد میں رو سکے!
وہ عورت اگر تعلیم یافتہ ہوتی تو اپنے دل کا درد کم کرنے کے لیے اپنے مرجانے والے بچے کو ایک خط لکھتی اور اس خط کے ابتدا میں اس سے پوچھتی:
’’کیسے ہو کامران؟‘‘
اور اس کو یہ بھی لکھتی کہ:
’’مجھے معلوم ہے کہ تم خوش نہیں ہو۔ اپنی ماں سے بہت ناراض ہو۔ تم کو شکایت ہے کہ تمہاری ماں نے دوسری شادی کیوں کی؟ مگر تم کو معلوم ہے کہ تمہاری ماں غریب تھی۔ بے سہارا تھی۔تمہارے والد کی وفات کے بعد پانچ بچوں کا بوجھ اٹھانا اس کے لیے مشکل تھا۔ اس لیے اس نے شادی کی۔ مگر اس کو کیا معلوم کہ جس شخص کے ساتھ وہ شادی کر رہی ہے کہ شخص انسان کی صورت میں ایک شیطان ہے۔ اگر تمہاری ماں جانتی کہ شادی کے بعد وہ تمہیں قتل کردے گا تو میں خودکشی کرلیتی مگر شادی نہ کرتی!‘‘

No comments:

Post a Comment