Sunday 28 June 2015

جب کوئی مرتا ہے

جب کوئی مرتا ہے


آہ ! یہ حیات کتنی بے ثبات ہے اور ہماری خواہشات کتنی لامحدود۔ چھ فٹ کا یہ انسان کتنے منصوبے 

بناتاہے ۔مڈل کلاس آدمی اچھی تن خواہ کی امید آنکھوں میں سجائے کولہو کے بیل کی مانند کسی 

اندھے کنویں کے گرد چکر کاٹتے کاٹتے گزر جاتاہے ۔اس کے دل میں یہ خواہش رہ رہ کر انگڑائیاں لیتی 

کہ کبھی تو اپنا گھر بنا لوں گا ۔میں نہ سہی میرے بچے تو چین کے دن کاٹیں گے ۔وہ اپنی زندگی میں 

کئی بار مرتا اور جیتا رہتا ہے لیکن اچانک کسی بے رحم ساعت میں اسے ایک جھٹکا ایسا لگتا ہے 

جس کے بعد مکمل سناٹا چھا جاتاہے ۔ہاں صرف ایک جھٹکا ۔وہ سارے خواب کانچ کی کرچیوں کی 

طرح بکھر جاتے ہیں ۔سارے سپنے حسرتوں کے قبرستان میں دفن ہو جاتے ہیں ۔وہ بس ۔ ۔ ۔مر جاتا ہے ۔

میں نے آج پہلی بار کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے سانسیں ہارتے دیکھا ہے ۔یقین کیجیے جب جب سوچتا ہوں دل اُچھل اُچھل کر حلق سے باہر آنے لگتا ہے ۔اپنے میٹھے قابل احترام دوست اور صحافی زوار حسین کامریڈ کی اہلیہ روبینہ زوار گذشتہ ماہ حادثاتی موت کا شکار ہو گئیں ۔موت سے دو دن قبل ان کے گھر بہت خوشگوار ملاقات ہوئی تھی ۔جب سنا تو جی نے ماننے سے انکار کر دیا لیکن کیا کیجئے دنیا کی سب سے اٹل حقیقت کو بھلا کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے ۔آج لاہور پریس کلب میں مرحومہ کی یاد میں ایک تعزیعتی ریفرنس تھا ۔مجھے اسٹیج کی ذمہ داری سنبھالنی تھی ۔لہٰذا 

وقت سے پہلے پریس کلب کی راہ لی ۔

کیمپس پل والے سگنل سے دائیں ہاتھ مڑا ہی تھا کہ عجیب منظر دیکھا ۔ سڑک کے عین وسط میں ایک شخص اوندھا پڑا تھا ۔اس سے چند قدم آگے ایک بالکل نئی بائیک الٹی پڑی تھی اور چند فٹ کے فاصلے پر ٹوٹاہوا ای سرخ رنگ کاہیلمٹ ۔میں رُکا، زخمی کے قریب گیا ۔سفید چمکدار لٹھۤے کا لباس بہت تیزی سے لال ہو رہا تھا ۔اسے دماغ کے پچھلے حصے پر ایسی شدید ضرب لگی تھی کہ اس کا سر پچک گیاتھا ۔خون اس کی آنکھوں سے اُبل اُبل کر گرم سڑک پر پھیلتا جارہا تھا ۔چند لمحوں میں لوگ بھی جمع ہو گئے ۔اُسے اُٹھا کر سڑک کے کنارے پر رکھا ۔خون اِتنا بہہ چکا تھا کہ اس کے بچنے کو کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی ۔ کسی نے 1122کو کال کی مگر کافی دیر ہو چکی تھی۔میں وہاں ماؤف دماغ کے ساتھ کھڑا کبھی خون میں لتھڑا لاشہ دیکھتا تو کبھی ان گاڑیوں کو جن کے ٹائر سڑک پر پھیلے خون کو چاٹتے جارہے تھے ۔

کچھ ہی دیر بعد 1122کی ایمبولینس آئی لیکن نامعلوم زخمی آخری ہچکی لے چکا تھا ۔وہ اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر چکا تھا ۔میں کچھ دیر کھڑا رہا ۔ذرا اوسان بحال ہوئے تو گھڑی پر نگاہ پڑی ۔ وقت کم تھا تقریب کے انتظامات بھی باقی تھے،سوبوجھل دل کے ساتھ آگے بڑھ گیا ۔ میں نے تقریب میں اپنی ذمہ داری تو کسی طرح نبھا لی مگر دماغ مسلسل سائیں سائیں کرتا رہا ۔

دوستو!مجھے آج شام پہلی بارزندگی اس قدر ناپائیدار محسوس ہوئی ۔سارے پروگرام ،سب منصوبے،مستقبل کے خواب کیا ہیں ؟بس ایک جھٹکے کی مار۔ ۔ ۔ صرف ایک جھٹکے کی ۔ ۔ ۔ دوستو! اس فانی حیات کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے ۔نہ جانے کس گھڑی ہمیں بھی جھٹکا لگ جائے اور سب کچھ ڈھیر ہو جائے ۔سو انسانوں سے محبت ،ان کی خدمت ،ان کی فلاح کونصب العین بناؤ۔خود پسندی،خودغرضی اور طمع سب کھوٹے سودے ہیں ۔عظیم مقاصد کے لئے جیو اور جب جاؤ تو ایسے کہ دل مطمئن اور سر فخر سے بلند ہو ۔
فرحان فانی
جمعہ،چھبیس جون دوہزار پندرہ
لاہور

No comments:

Post a Comment