گلزار کی ایک نظم
گلزار کی ایک نظم
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیںمہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیںجو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثرگزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پربڑی بے چین رہتی ہیںانہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہےبڑی حسرت سے تکتی ہیںجو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھےوہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میںجو رشتے وہ سناتی تھیںوہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیںکوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہےکئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیںبنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظجن پر اب کوئی معنی نہیں اگتےبہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔۔جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیںگلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالازباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کااب انگلی کلک کرنے سے بس اکجھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پرکتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہےکبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھےکبھی گودی میں لیتے تھےکبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کرنیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سےخدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھیمگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھولکتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھےان کا کیا ہو گاوہ شاید اب نہیں ہوں گے
بہت خوب انتخاب۔۔۔ کتاب اور کنڈل میں فرق سمجھانے کا خوب انداز ہے
ReplyDeleteفرحان فانی کتاب بینی اور ڈیجیٹل لرننگ یا ریڈنگ میں فرق چاشنی کا ہے'امرت کا ہے'سکوں کا ہےاور سب سے بڑھ کے شائداس تہذیبی اور اخلاقی رکھ رکھاوکا ہےجو ہماری معاشرتی تربیت اور ٹھہراو کا باعث رہی ہے اور اب ایک انگلی کی جنبش اس کو کئی پردوں میں چھپا نہیں بلکہ دبا دیتی ہے ۔ داد دینی چاہیے اس کی ہمت کو کو پھر بھی پردوں سے بار بار سر نکالتی ہے اور آپ جیسے لوگوں کوچحا کرتی ہے-
ReplyDelete