Saturday 16 May 2015

ارے بھئی! تم نے تو واقعی کمال کر دیا


ارے بھئی! تم نے تو واقعی کمال کر دیا




”اس کا کام پروفیشنل سفاکی سے بھرا پڑا ہے“
یہ فلیپ پر لکھی تعارفی تحریر کا آخری جملہ ہے ۔ابھی دو دن قبل یہ کتاب میرے ہاتھ لگی ۔نگارشارت کی تازہ ترین اشاعت ہے ۔کتاب میں پاکستان کی اخباری صحافت کا ایک منفرد جائزہ لیا گیا ہے ۔آپ اسے بجا طور پر تنقیدی جائزہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔
کتاب کھولی تو بس پڑھتا ہی چلا گیا ۔پہلے نوائے وقت کی بات چلی ۔کچھ ماضی کی باتیں کرنے کے بعد عارف نظامی کا طویل انٹر ویو شامل کیا گیا ۔نوائے وقت کے اندرونی بحران کی کہانی عجیب ہے ۔پھر مجید نظامی کا انٹرویو ہے ۔میدان صحافت میں موجود لوگ سمجھ سکتے ہیں کی عارف نظامی کے بعد مجید نظامی کے انٹرویو کا کیا مطلب ہے ۔
یہ انٹرویوز پڑھتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ کتاب کے مصنف کو فلیپ پرجو ”پروفیشنل سفاکی“ کا حامل آدمی کہا گیا،وہ بالکل بجا ہے۔
ٓآپ خود دیکھئے کہ وہ مجید نظامی سے کیا سوال کرتا ہے۔
سوال:آپ اپنی تقریروں میںاکثر کہتے ہیں ،ہندوبنیا،مکار،عیار،۔۔۔۔۔۔تو پاکستان میں لاکھوں ہندو آباد ہیں۔۔۔؟
جواب:ہوتے رہیں ۔ ۔ ۔
ایک اور سوال:کہا جاتا ہے آپ خوشامد بہت پسندکرتے ہیں۔نظریہ¿ پاکستان اور اخبار میں بھی آپ کے گرد خوشامدی ہیں؟جواب خود پرھیئے ۔طویل ہے لکھا نہیں جاتا ۔
اس گفتگو میں بھتیجے کے علاوہ نذیر ناجی،شہباز شریف،نواز شریف بھی زیر بحث آئے ،مجید نظامی نے نواز شریف کو انا پرست قرار دیا ۔
اس کے بعدہے قصہ روزنامہ پاکستان کا
خود سمجھ لیجئے پہلے سردار خاں نیازی کا طویل انٹرویو ہے اوراس کے متصل بعد ۔ ۔ ۔کس کا ہو سکتا ہے؟
سمجھ تو گئے ہوں گے آپ ۔ ۔ ۔ جی اس کے بعد مجیب الرحمان شامی کا انٹرویو ہے ۔
ایس کے نیازی نے کھلی گفتگو کی جبکہ شامی صاحب نے محتاط لب ولہجہ اختیار کیا ۔بس وہ اکثر”لعنت االلہ علی الکاذبین“ کہتے رہے ۔
بھٹو وضیاءڈسکس ہوئے ۔مثلاً ایک سوال دیکھیں۔
سوال:کیا آج مجیب الرحمن شامی یہ حوصلہ کریں گے کہ ڈکٹیٹر ضیاءالحق کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگیں گے؟
جواب:نہیں ۔میں ان کا وزیر نہیں رہا۔
ایک اور سوال دیکھئے ذرا
سوال:ایک انٹرویو میں آپ نے کہا”جب میں کارکن صحافی تھاتو بلا خوف اپنی بات کرتا تھا۔مالکانہ حقوق میسر آتے ہیں تو مختلف حربے اختیار کرنا پڑتے ہیں“یہ حربے کیا ہیں؟
ایک اور سوال: کتنے پمپ ہیں آپ کے پاس؟ جواب :بس ۔ایک وہی
سوال:شہباز شریف نے ساری تجاوزات گرائیں،آپ کا وہ پمپ بھی تجاوزات میں آتا ہے لیکن وہ نہیں گرایا؟
کارکنوں کی تنخواہوں کے علاوہ کئی ایک کاٹ دار سوال کیے گئے
اس کے بعدباری آتی ہے ”ادھر تم ادھر ہم “ کے خالق عباس اطہر رعرف شاہ جی کی ۔
یہاں بھی انٹرویو نگار سفاک نظر آیا ۔
بھٹو،بے نظیر،ضیاءڈسکس ہو ئے۔ایک سوال یہ کیا گیا۔
سوال:بعض لوگ کہتے ہیں آپ کے زیر سرپرستی تاج پورہ میںجواءہوتا ہے؟
اس کے بعد ضیاءشاہد کی باری آتی ہے ۔
پہلا سوال:اخبار شروع کرنے کے لئے آپ کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا؟
ایک اور سوال:ایک عوامی رائے کے مطابق خبریں بلیک میلر اخبار ہے۔اس میں کہاں تک سچائی ہے؟
پھر با ب باندھا ہے ”کالم اور کالم نگاری
یہ مصنف کے ذاتی تجزیے ہیں ۔بڑے بڑے نامی گرامی کالم کاروں کے کالم کی ساخت،خیال اور فنی خوبیوں خامیوں کا بڑی جرات سے ذکر کیا ہے۔
ممکن ہے بہت سے کالم نگارو ںکو پسند نہ آئے ۔جاوید چوہدری خاص طور پر ”رگڑے“ گئے ۔
(راقم کو مصنف کے کالم نگاروں کی تحریروں کے بارے میں مجموعی تاثر سے کافی حد تک اتفاق ہے)
پھرنذیر ناجی کا تفصیلی انٹرویو ہے ۔ایک سوال دیکھئے
سوال:الطاف حسن قریشی،مجیب الرحمان شامی،مصطفی صادق اور عبدالقادر حسن بھی تو ضیاءکے بہت قریب رہے ہیں؟
جواب:یہ چاروں ضیاءالحق کے نور تنوں میں شامل ہیں۔
سوال :آپ نے آج تک کتنے پلاٹ الاٹ کروائے؟
پھر آتے ہیں حسن نثار ۔
یہ بھی ایک کھلا ڈلا انٹرویو ہے ۔سوالات حسب معمول کاٹ دار ہیں ۔حسن نثار کبھی تلملا بھی اٹھتے ہیں مگر ملاقات نگار حوصلہ مند ہے ۔ایک سوال دیکھئے۔
سوال: عام طور پر آپ کے کالم ایسے لگتا ہے نان فوکسڈ ہیں؟
یہ بھی ایک معلوماتی انٹرویو ہے ۔
اس انٹرویومیں ”بے غیرت“،”بے ہودہ“،”گند“،”بے شرم“،”بکواس“،”بھڑوے“،”کتا“،”الو کا پٹھا“ ،”لعنتیوں“ قسم کی تراکیب نادرہ بکثرت ملتی ہیں ۔
پھر اردو اور اگریزی صحافت کے امتیازی پہلووں پر تفصیلی کلام کے بعدپاکستان کے اردو اور انگریزی کے معروف اخبارات کا جائزہ فرداً فرداً لیا گیا ہے ۔آخری باب ہے پاکستانی صوبے،زبانیں اور پرنٹ میڈیا ۔اس میں صوبوں شائع ہونے والے اخبارات اور اب سے جڑے اہم مسائل مذکور ہیں ۔عباس اطہر اور مجید نظامی کے یہ انٹرویوز سن دو ہزار گیارہ میں لئے گئے اب جبکہ یہ کتاب شائع ہوئی ،یہ دونوں حضرات اپنے مالک کے حضور پیش ہو چکے ہیں ۔
میرے خیال میں یہ کتاب پاکستانی پرنٹ صحافت کا ایک اہم حوالہ ہے ۔ہر باخبر صحافی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے ۔توقع ہے کہ صحافت کے سنجیدہ طالب علم بھی اسے نظر انداز نہیں کریں گے ۔انٹرویو نگار دوست تو لازمی پڑھیں۔مصنف کو میرا مشورہ یہ ہے کہ ’’میڈیا منڈی ‘‘ نامی اس کتاب کو سیریز کی صورت میں شائع کریں ۔ابھی بہت کچھ باقی ہے لکھے جانے کو ۔
آخر میں عرض کروں کہ اس کتاب کے مصنف اکمل شہزاد گھمن ہیں ۔جن کے بارے میں میں بس یہی جانتا ہوں ۔محمود الحسن(ایکسپریس لاہور) کا شکریہ کہ ان کی وساطت سے ہمیشہ اچھی کتابیں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔
فرحان فانی
لاہور
اتوار،سترہ مئی دوہزار پندرہ

No comments:

Post a Comment