Wednesday 6 May 2015

سب دن مزدور کے

سب دن مزدور کے

 یکم مئی دو ہزار تیرہ کو لکھا گیا ایک کالم 
مئی کا مہینہ ہے اور اس کا پہلا دن۔اس دن کی اہمیت کچھ بھی ہو ہم اُسے مزدور کے حوالے سے جانتے ہیں۔وہ برسوں پہلے کئی مزدوروں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی۔جب وہ اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج تھے۔زمین پر پھیلے خونِ غریباں کو دیکھ کر کسی مزدور کے ذہن میں جانے کیا خیال کوندا کہ اس نے اس لہو میں ایک کپڑا رنگ کر لہرا دیا۔یہ یکم مئی 1886ء کا دن تھا۔اس وقت سے ’’سرخ رنگ‘‘ مزدوروں کی تحاریک کا استعارہ بنا چلا آرہا ہے۔

مزدور کی ہمارے درمیان کیا حیثیت ہے؟کسی بھی مشین کا بنیادی پرزہ،گاڑی میں انجن،انسانی جسم میں نیو کلیس۔کچھ بھی کہہ لیجیے۔زمانے کی تمام سہولیات،آلات واسباب ِ آسائش اُسی بوسیدہ لباس،غبارر آلود بالوں اور گھسے جوتوں والے محنت کش کی تھکا دینے والی محنت کا نتیجہ ہیں۔اپنی ذات،چھ فٹ کا بدن دیکھیے۔آپ کا خوبصورت لباس،آنکھوں پر سجے برانڈڈ چشمے،بالوں میں مہکتا تیل،پُرسکون گھر،سواری غرض ہم میں سے ہر شخص مزدور ہی کی محنت کے بل بوتے پر ڈھنگ کی زندگی گزار رہا ہے۔گویا مزدور ہمارے لیے از حد اہم ہے ۔دنیا میں جو چیز جتنی اہم ہوتی ہے اُتنی ہی عام ہوتی ہے ۔پانی کو دیکھیے۔ حیات کی اصل ہے مگر عام کتنی ہے۔ہوا کی مثال لے لیجیے۔کبھی عام حالات میں اس کی موجودگی کو شعوری انداز میں نہیں سوچا جاتا لیکن اہمیت اس کی طے شدہ ہے ۔مزدور بھی اسی طرح عام اور اہم ہے۔لیکن ہم بہت کم اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ہم اپنی زندگیوں کی رنگینیوں میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کی کسی جھونپڑی میں بسنے والے محنت کش کی زندگی ،ضروریات اور حالات ہماری نظروں اور ذہن سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔

مزدور کی طرف کم توجہ دینا تو تھا ہی۔لیکن اس سے بڑھ کر الم ناک حقیقت مزدور کا نہ رکنے والااستحصال ہے۔اور یہ کم وبیش ہمیشہ ہوتارہاہے۔مزدور سے کم اُجرت پر ہڈیاں نچوڑ دینے والا کام لینا،اس کے ساتھ تحقیر آمیز امتیازی روّیہ روا رکھنا۔اس کو ایسے حالات سے دو چار رکھنا کہ وہ بہر صورت کم اُجرت پر زیادہ سے زیادہ دورانیے کی پر مشقت مزدوری کرنے پر مجبور رہے۔یہ مسائل مزدور کو ہر زمانے میں درپیش رہے ہیں۔محنت کشوں کے لیے یکم مئی کی تاریخ کا حوالہ تو بہت بعد کی بات ہے۔مزدور سے زیادتی کا عمل اوراس کا مستقل اندیشہ اگر نہ ہوتا تو اسلام کئی صدیاں پہلے ــ’’محنت کش کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا عوضِ محنت ادا کرنے‘‘ کی تاکید کبھی نہ کرتا۔

ہمارا مسئلہ’’ اسٹیٹس کو‘‘کی کھوکھلی عمارت کا طواف ہے۔محنت کش سے ہاتھ ملانا،اس کے ساتھ اپنے ’’اصلی والے‘‘ منہ سے بات کرنا،اس کے ساتھ مسکرانا،اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا اپنے نام نہاد اسٹیٹس کو اور مصنوعی معیار کے خلاف سمجھتے ہیں۔ہم اپنی کمپنی،اپنی دکان،اپنے ادارے کے ملازم کے ساتھ بے تکلف اس لیے نہیں ہوتے کہ’’ بلاوجہ سَر چڑھ جائے گا‘‘۔ہم اس کو اس کی ’’اوقات‘‘ میں رکھنا چاہتے ہیں۔لیکن لمحہ بھر کے لیے سوچا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم اس ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی پرستش کے باعث اپنے آپ کوایک قدرتی اور خوبصورت دُور رکھنے کی مشقّت مسلسل اُٹھا رہے ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ محنت کش کی مدد اور حمایت یہ ہے کہ اس کے حق میں مضامین لکھے جائیں۔شعر کاڑھے جائیں۔یونینیں قائم کر کے جلسے ،ریلیاں بر پا کی جائیں۔ان کے ساتھ منسوب دن پر اخبارات کا کوئی صفحہ خاص کر کہ چھاپا جائے۔ان سب باتوں کی اہمیت سے انکار نہیں ۔مگر یہ کفایت نہیں کرتے۔جو لوگ اوپر ذکر کیے گئے کام نہیں کر سکتے وہ محنت کشوں کے ساتھ کیا ہمدردی کر سکتے ہیں؟اس کے لیے دماغ سوزی کی ضرورت ہے نہ کسی کارل مارکس و لینن کے فلسفے پر سر دحننے کی۔آسان اور سادہ ہے۔آپ اپنے سے متعلق مزدورکو اپنا بھائی اور اپنی ہی طرح کا انسان سمجھئے۔اسے اِسی معاشرے کا فر دسمجھئے۔یہ تصور کیجیے کہ اس کے پہلو میں بھی دل ہے۔اوراس دل میں بالکل اسی طرح خواہشات انگڑائیاں لیتی ہیں جیسے آپ کے دل میں۔اس کے بچے بھی کھلونے مانگتے ہیں۔اُس کی بیوی بھی نئے پہناوے کی تمنّا رکھتی ہے۔آپ ایک کام کیجئے۔اُس کا محنتانہ بر و قت اور پورا پورا احترام اور شکریے کے ساتھ ادا کر دیا کیجیے۔اس سے بڑھ کر مزدور کی کوئی مدد نہیں۔

اوپر میں نے کہا ’’آپ کا مزدور۔‘‘جی ہاں ! آپ کے گھر گرمیوں اور جاڑوں کی پرواکیے بغیر بلا ناغہ آٓنے والی آیا۔آپ کے باغیچے کو سر سبز اور خوشگواررکھنے والا مالی۔اپنے گھر سے دُوراپنی راتیں آنکھوں میں کاٹ کر آپ کو مطمئن سُلانے والاچوکیدار بابا۔آپ کے انتظار میں دن کے کئی پہر اور بعض مرتبہ گھنٹوں گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے چپکا رہنے والا ڈرائیور۔ہر صبح آپ کی دہلیز پر آنے والا دودھ والا۔آپ کی دکان پر کام کرنے والا ملازم۔آپ کے ادارے کا آفس بوائے اور اسٹاف۔آپ کے عالیشان ہوٹل کا بیرا۔آپ کے مشہور اور کام یاب اخبار یا رسالے کا رپورٹراور کارکن۔یہ سب آپ کے براہِ راست مزدور ہیں۔یہ آپ سے تھوڑا احترام،ذرا سی ہمدردی،کبھی کبھار سہی مگرہنستے چہرے کا مختصر سا مکالمہ اورسب سے بڑھ کر اپنی بروقت مزدوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں مانگتے۔

کچھ محنت کش آپ کے براہِ راست کلائنٹ تو نہیں لیکن آپ کی تھوڑی سی ہمدردی اور مدد وہ بھی چاہتے ہیں۔آپ کی گلی میں ’’چٹ پٹے چھولے ‘‘ کی صدا لگانے والا،بندر اور ڈگڈگی کو اپنے رزق کا ذریعہ بنا کر کوچہ کوچہ پھرنے والا،پتیسے بیچنے والابابا،ٹریفک سگنل پر آپ کی گاڑی کے قریب آکر پھولوں کے ہار پیش کرنے والا لڑکا،ہاتھ میں سَرف اورچھوٹا سا وائپر تھامے کبھی آپ کی جانب اور کھبی آپ کی گاڑی کی دنڈ اسکرین کی طرف امیّد بھری نگاہوں سے دیکھنے والا میلے کپڑوں میں ملبوس بچہ۔آپ کی گلی میں آنے والا پھیری والا۔یہ سب لوگ اپنی روٹی روزی کی تلاش میں کوچہ کوچہ پھرتے ہیں۔ان سے کچھ خریدا جائے یا نہ خریدا جائے۔یہ آپ کی مرضی اور ضرورت پر مبنی ہے۔لیکن ان کا انسانی مساوات کے تحت احترام اور اپنے روّیے سے ان لوگوں کے لیے اپنائیت کا اظہار۔کم از کم انھیں جھڑکا نہ جائے۔یہ ہماری طرف سے ان کی مدد ہے۔

اپنی ضروریات اور روزمرّہ گھریلو اشیاء کی قیمتوں اور آمدنیوں کے تناسب کا اجمالی اندازہ ہم سب کو ہے۔بڑھتے ہوئے نرخوں کے ساتھ محنت کش کے معاوضے میں اضافے کی جانب بھی توجہ دی جانی چاہیے۔یہ بات لکھتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں ہوں کہ ابھی میں اپنے لوگوں سے مایوس نہیں ہوں۔3سال اُدھر کی بات ہے۔ کسی علمی مجلس میں ایک علم والے نے اپنے ادارے کے سربراہ کے حوالے سے سنایا۔یہ پاکستان کا معروف ادارہ ہے۔اس کی کئی شاخیں کام کر رہی ہیں۔ یہ’’علم والا ‘‘ان میں سے ایک شاخ کا انچارج ہے۔علم والا کہتا ہے’’ایک دن ادارے کے سربراہ نے دورانِ گفتگو مجھ سے پُوچھا کہ’’ آپ کے زیرِ نگرانی چلنے والی شاخ (برانچ) کے فلاں شعبے میں صفائی وغیرہ کا کام کرنے والا کتنی تنخواہ لے رہا ہے۔‘‘ میں نے کہا:’’مبلغ 5 ہزار روپے‘‘۔میرا جواب سن کر سربراہ کو جیسے جھٹکا سا لگا اور لمحہ بھر توقف کے بعد مجھ سے پوچھا۔صاحب!مجھے بتائیے’’اس مہنگائی کے دور میں ایک عیال دار آدمی اتنے کم پیسوں میں کیسے گزارہ کر سکتا ہے؟‘‘۔میں نے دھیمی آواز میں جواب دیا:’’جی کیا کہہ سکتا ہوں۔‘‘’’آپ کو پتہ ہے ہمارے ملک کے حکمران نے کچھ عرصہ پہلے یہ حکم دیا تھا کہ مزدور کی کم سے کم ماہانہ اُجرت’’ اتنی ‘‘ہونی چاہئےــ؟ــــ‘‘سربراہ نے اُن دنوں وزیرِ اعظم کی طرف سے جاری کیے گئے حکم نامے میں بتائے گئی مقدار بتاتے ہوئے کہا۔سربراہ نے دلیل دیتے ہوئے مزید کہا: ’’آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ حکمران جیسے بھی ہوں ،مفادِ عامہ کے کام میں ان کے حکم کی تعمیل لازمی ہے۔‘‘ میں نے اثبات میں سے ہلایا۔پھر سربراہ نے قدرے سخت انداز میں مجھے حکم دیا’’فوراً اس محنت کش کی تنخواہ بڑھا کر’’ اتنی ‘‘کر دی جائے۔‘‘سربراہ نے جو مقدار بتائی وہ حکومت کی متعیّن کردہ مقدار سے 4 یا 3ہزار زیادہ تھے۔

میں نے جب اس’’علم والے‘‘ سے یہ واقعہ سُنا تو میرا جی چاہا کہ سب لوگوں خاص طور پر بڑے اداروں کے مالکوں، کارخانے داروں، پٹرول پمپز کے مالکوں اور ہر اس شخص تک یہ واقعہ پہنچ جائے تو کتنا اچھا ہو۔شاید کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ اتنے بڑے ادارے کا اکیلا سربراہ،ہر دم مختلف قسم کی مصروفیتوں میں گِھرا رہنے والا انسان اپنے ادارے کی ایک برانچ کے بظاہر معمولی سمجھے جانے والے مزدور کے بارے میں سوچنے، اس کے حالات اور مسائل جاننے کے لیے کیونکر وقت نکال سکتا ہے۔آج محنت کش کا تذکرہ چلا تو پہلی بار میں نے آپ سے یہ واقعہ’’شیئر‘‘کردیا۔

حرفِ آخر:اب کی بار میں نے عالمی مزدور تحریک، مزدور یونینوں، مزدوروں کے نام پر سیاست، کارل مارکس، لینن، ماؤزے تنگ، کاسترو، اٹالن اور ٹراٹسکی کے نقطہ ہائے نظر،اس فلسفے کا بعض ممالک میں نفاذ، اس کا زوال، اس کی اساسیات میں مجبوراّ کی جانے والی تحریفات، ان دنوں وہاں کے مزدور کی حالتِ زاراِن سب باتوں(جن کو سرسری ’’ٹچ‘‘ دینا روایت چلی آ رہی ہے) سے احتراز کیا ہے۔اِن کا مقام کوئی اور اخباری کالم ہوگا۔اب کی بار میں نے اپنے پڑھنے والے سے محنت کشوں کے بارے میں آسان اور سیدھی سادی باتیں کرنے کا ارادہ کیا تھا،سو میں عرض کر چکا۔ باقی مرضی قاری کی

No comments:

Post a Comment