Friday 8 May 2015

چلو انسان بنتے ہیں

چلو انسان بنتے ہیں

فرحان فانی


آج صبح تڑکے مجھے ایک دوست یاد آیا۔ اس سے پیش تر ایک جملہ ذہن میں کوندا جو وہ اکثر کہا کرتا تھا۔یار لوگوں نے تو خیر وہ جملہ اس کی چھیڑ بنا لیا تھا۔جملہ تھا کہ ”انسان بننا اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے“۔جب کسی دوست یا کولیگ کی طرف سے کوئی شرارت بھرا مذاق ہوتا تو وہ اپنے مزاحمتی احتجاج کو اس جملے میں سمو کر دل کا غبار ہلکا کر لیتا تھا۔سیدھا سادہ، دُور کہساروں کا باسی بات بھی سیدھی کرتا تھا۔ اس کے لب و لہجے میں بناوٹی توڑ مروڑ کا شائبہ تک نہ تھا جو کہ تہذیبِ نو کا خاصہ سمجھی جاتی ہے۔ مالک اس سچ کی مانند اُجلے یارِ طرح دار کو سر سبز رکھے۔ اس جملے کی وساطت سے سوچ کی کڑیاں ملتی چلی گئیں۔ اہلِ دانش کی باتیں، عمرِ گزشتہ کے مشاہدے کسی قدر ربط کے ساتھ ذہن کے پردے پر فلم کے ٹریلر کی طرح گزر گئے۔


زندگی ڈھونا اور زندگی گزارنا دو الگ چیزیں ہیں۔ ایک اور چیز ہے زندگی کرنا۔ اصطلاح شاید اجنبی محسوس ہو لیکن ہے درست۔ زندگی کوایک کام، ایک مشن بلکہ ایک چیلنج سمجھ کر ”کرنا“ اور چیز ہے اور ایک بوجھ سمجھ کر ڈھونا دوسری چیز ہے۔ یہی وجہ ہے جب کسی پشتو بولنے والے کا واسطہ پہلی پہلی بار اردو سے پڑتا ہے تو وہ اپنے مقامی محاورات کا ست رنگی اردو میں ترجمہ کرتا ہے۔وہ علم حاصل کرنے کو ”علم کرنا“ کہتا ہے۔”فلاں علم کر رہا ہے“ یا ”فلاں نے اتنے برس علم کیا“۔یارانِ نکتہ داں شاید معترض ہوں لیکن مجھے ان بظاہر شکستہ جملوں میں ایک گہری مقصدیت کا پہلو دِ کھتا ہے۔زندگی صحیح معنوں میں کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط انسان بننا ہے۔اور ”بننا“ ایک کام ہے۔ایک عملِ جاں گسل ہے۔اس طویل المدتی پروجیکٹ پر عمریں صرف ہو جاتی ہیں۔اس” بننے“ کے لیے کتابیں حفظ یاد ہونا،مروّجہ علم کے اصولوں کا ازبر ہونا اہم شرط ہے نہ اس بابت کسی ڈپلومے یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔ یہ ”بننا “کسی مخصوص وضع و ہیئت پر موقوف نہیں۔ یہ تو بس نام ہے شعور بیدار رکھ کہ جینے کا۔ جملہ حواس کام میں لا کر مشاہدے، تجربے،تجزیے اور 
عمل کا۔جب آدمی ایک الگ انداز سے دیکھنے،سوچنے،سمجھنے اور نتائج ترتیب دینے کے قابل ہو جاتاہے تواس کی ترجیحات یکسر بدل جاتی ہیں۔ J.D.BOATWOOD کا جملہ یاد آتا ہے۔''Hold your head too high and you will stumble over unseen obstacles'' مطلب یہ کہ اُسے نادیدہ حقائق دِکھنے لگتے ہیں۔


اخلاقیات اور معاشرت کا نظری علم تو کتابوں میں موجود و محفوظ ہے لیکن عمل کی دنیا میں قحط ہے۔ انسانوں کا کال پڑا ہوا ہے۔ علم والوں سے سنا ہے کہ دین کی تعلیمات کا دو تہائی سے سوا معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔ وجہ واضح ہے کہ دنیا میں معاملات ہی وہ کھونٹیاں ہیں جن کے ساتھ انسان بندھے ہوئے ہیں۔سنِ شعور سے لبِ گور تک آدمی اور معاملات کاتعلق چلتا رہتا ہے۔لفظ ِمعاملات گھر،والدین،تعلیمی اداروں،دفاتر،کارخانوں غرض ہر جگہ انسانوں کے انسانوں سے لین دین،معائدات وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے۔آدمی کی بیشتر زندگی انہی کے گرد گھومتی ہے۔ان تمام شعبوں میں سر خروئی کے ساتھ وہی شخص آگے بڑھ سکتا ہے جو ”انسان“ بن چکا ہو۔لیکن مذکورہ دوست کے بقول”انسان بننا ایک مشکل کام ہے۔“ انسان بننا مشکل کیوں ہے؟ یہ ہے اصل قضیہ۔۔۔وہ کسی نے کہاہے نا۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

فرشتہ تو ٹھہرا سدا کابے خطا کہ غلطی کا عنصر اس کے اجزائے ترکیبی میں نہیں۔ وہ تو بس سراپا طاعت و عبادت ہے۔ رہا انسان تو سیانے بتاتے ہیں کہ سراپا نسیان ہے۔ خیر وشر، بھلا و بُرا ہر دو طرح کے عناصر سے ترکیب پاتا ہے۔ عناصرِ شر اسے گناہ کی جانب برابر دھکیلتے رہتے ہیں۔ گاہے غلطی کر بیٹھتاہے اور بہت مرتبہ بچ نکلتا ہے۔ درحقیقت غلطی کرنا اتنا شدید جرم نہیں جتنا کہ بے حس ہو جانا قابلِ مذمت ہے۔ غلطی کرنااور منہ اُٹھا کر آگے چل پڑنا، غلطی سے کچھ نہ سیکھنا بڑاجرم ہے۔ ہمارا معاشرہ بد قسمتی سے اسی جرم کا مرتکب چلا آرہا ہے۔یہاں غلطیوں سے سیکھنے کا احساس ناپید ہے اور کیوں نہ ہو کہ غلطی کرنا اب توفن گردانا جا رہا ہے۔کسی نے انہی حالات سے تنگ آ کر دہائی دی تھی کہ ”میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انسان ہو کر“۔شاعر کی شرمندگی کی بنیادی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کی انسان نما اسٹرکچر میں انسانیت مفقود ہو چکی ہے۔

کہا گیا کہ شعور کا بیدار ہونا انسان بننے کے لیے اہم ہے۔شعور کی بیداری سوچنے پر منحصر ہے۔کم لوگ جانتے ہیں کہ سوچنا بھی ایک مستقل کام ہے۔کسی بھی عمل سے پہلے اور اس کے بعد لمحہ بھر کے لیے سوچنا۔اس کے متضاد پہلوو ¿ں کا جائزہ لینا۔آگے بڑھنے سے پہلے پچھلے اقدام کے نتائج کولمحہ بھر کے لیے سامنے رکھنا۔پچھلی غلطیوں ،کمزوریوں اور کوتاہیوں کو تنقیدی چھلنی سے گزارنے کے بعد آئندہ کا ردِّ عمل طے کرنا۔یہ ایک پریکٹس ہے جو سانسوں کا ڈورا ٹوٹنے تک ایک معقول آدمی جاری رکھتا ہے۔یہی چیز آدمی کے کردار کو ترقی کی راہ پر ڈالتی ہے۔ہم مجموعی طور پر جب کرپشن،فراڈ،دھوکہ وغیرہ کے الفاظ سنتے ہیں تو ہمارا ذہن دوسروں کی کھود کرید اور تجزیے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ہم ان بدنام عنوانات کو اپنی ذات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے افراد کے ماتھوں پر ٹانگنے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔کسی نظر والے نے کہا تھا کہ ”جب کسی اچھی خوبی کا ذکر اور اس کی مدح سرائی ہو رہی ہو تو یہ خوبی دوسروں میں تلاشی جائے اور اگر کسی بُرائی کا ذکر ہو تو اپنی ذات کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر کہ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ “یہ ہے اصول کردار کی تعمیر کا۔ اسے مدِّنظر رکھ کر انسان بننے کے عمل کی مشکلات کافی حد تک آسان ہو سکتی ہیں۔

کچھ مشینی مزاج لوگ اس بابت سرگرداں رہتے ہیں کہ انسان بننے کے لیے کسی مخصوص حدودِ اربعہ کا ادارہ جائن کیا جائے جہاں کوئی مشین ہو۔اس کے ایک جانب سے اندر داخل ہوں اور دوسری طرف سے صاف دُھلے دُھلائے باہر نکلیں۔ایسا تو ہونے سے رہا۔بعض دوسرے شاکی ہیں کہ زندگی سیکھی تو جائے مگر کس سے؟ فلسفہ دان نے انوکھے انداز میں اس کا جواب دیا''When the student is ready the teacher will appear" ۔مطلب یہ کہ سنجیدہ تڑپ شرط ہے۔جب آپ کے اندر کا وہ شعور بیدار ہو جاتا ہے جس کی ترقی یافتہ صورت کے لئے اشرف المخلوقات کا ٹائٹل رکھا گیا ہے۔وقتی اور عارضی کششوں میں کھو کر انسانیت کے حقیقی مقاصد سے جاہل اور بے خبر رہنا جرم ہے۔ زندگی گو کہ تیز ہے۔ مصروفیات زندگی کے قدرتی حسن کو متاثر کر رہی ہیں۔ اخلاقی اقدار کے لیے سب سے نقصان دہ پہلو وہ جب آدمی کو اپنے لیے وقت نہ ملے۔اسے انسانیت،اس کے مقاصد اور اپنی ذات کے تقابلی جائزے کی فرصت نہ ملے۔ہمیں ایک لحظہ ٹھہر کراپنی دنیا میں موجودگی کے جواز پر سنجیدگی سے غور کر کہ اپنی ترجیحات کی درجہ بندی کر کہ صحیح معنوں میں انسان ”بننے“ کے عمل کی ابتداءکرتا ہو گی۔آخر میں جارج بورڈ مین کی بات''Sow an act,and you reap a habit;sow a habit,and you reap acharacter,and you reap adestiny'' ایک عمل بو کر ایک عادت کاشت کریں اور ایک عادت بو کر کردار حاصل کریں اور پھر خوش بختی آپ کا مقدّر ہو گی۔ رہے نام اللہ کا۔

No comments:

Post a Comment