Wednesday 6 May 2015

پانی،موٹے ہاتھ والا اور سانولا بچہ


پانی،موٹے ہاتھ والا اور سانولا بچہ



گزرے کئی ایّام سے ایک تصویر ذہن کے پردے سے چپکی ہوئی ہے۔اس منظر میں دردناک پیغام ہے جس نے مجھے مغموم بنا رکھاہے۔تصویر میں کیا ہے؟پانی کا ایک پائپ ہے جس کے سرے پر ایک نل ہے۔اس ربڑ پائپ کو ایک موٹے سے ہاتھ نے دہرا کر کے اپنی مٹھی میں بھینچ رکھا ہے۔نل کے سامنے گہری سانولی رنگت والا ننگ دھڑنگ بچہ،جس کی ناصرف پسلیاں بلکہ تمام ہڈیاں آسانی سے شمار کی جاسکتی ہیں۔اس کی موٹی موٹی آنکھیں وحشتوں ،ویرانیوں کی آماج گاہ معلوم ہوتی ہیں۔بچہ اپنا منہ نل کے انتہائی قریب کئے ہوئے ہے۔اس امّید پر کہ شاید پانی کا کوئی قطرہ اُس کے خشک حلق کو تر کرنے اِدھر نکل آئے۔اُسے نہیں معلوم کہ اُس کی اس معصوم سی امّیدکی بر آری دہرے پائپ سے چپکی ہوئی ہے اُس مٹھی کی ایک ذرا سی جنبش پر موقوف ہے۔جو اپنی جو اپنی گولائی اور موٹائی کے اعتبار سے کسی آسودہ حال کی مٹھی معلوم ہوتی ہے۔وہ بے چارہ بچہ پانی نہ ملنے پر بار بار اس نل کو کوسنے لگتا ہے۔وہ بے خبر نہیں جانتا کہ پانی نہ آنے میں نل کا کوئی قصور نہیں ۔پانی نہ ملنے کی اصل وجہ کوئی اور ہے۔


بچہ جب قطعی طور پر ماےوس ہوجاتا ہے تو وہ نامعلوم مٹھی لمحہ بھر کے لئے اپنی گرفت ڈھیلی چھوڑ دیتی ہے۔پانی کے چند قطرے جو خشک پائپ اور نل کی پیاسی دیواروں کو سیراب کرنے کے بعد بچ جاتے ہیں،نل کے منہ سے بر آمد ہوتے ہیں۔اُن میں سے بھی کچھ بچے کے منہ میںباقی زمین پر گِرکرتشنہ غبار کارزق بن جاتے ہیں۔ مرنے والا بچہ پھر کچھ لمحے کے لیے جینے لگتا ہے۔آبِ حیات کی اِس گزرگاہ کاوالو ایسے ہاتھ میں ہے جوآب جُو کوایک دم مرنے دیتاہے اورنہ ہی کُھل کر جینے دیتا ہے۔وہ اس سانولے پیاسے بچے کو موت اور حیات کی درمیانی مسافت میں پنڈولم کی طرح پیہم گردش میں دیکھتے ہوئے فرحت محسوس کرتا ہے۔کیوں کہ جینا اور بھرپور جینا اُس موٹے ہاتھ والے کاحق ہے۔باقی لوگ اُس کی زندگی کو بھرپور بنانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔وہ اُس کی 
آسودگی کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں موجود ہیں۔قطع نظر اس بات کے وہ اس خدمت میں اپنی جان کی بازی بھی لگا بیٹھیں۔


اس نامعلوم” موٹے ہاتھ والے“ نے رسد گاہِ حیات پر اپنی گرفت کیوں رکھی ہوئی ہے؟وہ پانی کے بہاﺅ کو آزاد چھوڑنا کیوں نہیں چاہتا؟وہ طویل وقفوں کے بعد صرف چند قطرے اور وہ بھی قسطوں میں کیوں چھوڑتا ہے؟کیوں کہ اُسے پتہ ہے اگر وہ پانی کے بہاﺅ کو آزاد چھوڑ دے گا تو”آب جُو“ ہڈیوں کے ڈھانچے میں زندگی دوڑنے لگے گی۔اور زندگی خوب سے خوب تر کی جانب لپکتی ہے۔اگر اس سانولے بچے کی تمام رگیں پانی سے تر ہو گئیں تووہ اس دنیا میں رہنے کے لیے ”ضرورت“ سے زیادہ پُر اُمّید ہو جائے گا۔وہ بھی بھر پور جینے کی تمنّا اپنے دل میں پالنے لگے گا۔اِس خواہش کی تکمیل کی راہیں تلاشے گا۔اور عین ممکن ہے ایک دن ایسا ہو کہ وہ پانی کی ایک بوند کو ترستا ”سانولا بچہ“ اُس” موٹے ہاتھ والے“ آسودہ حال کے مقابل کھڑا ہو یا اُسے بہت پیچھے چھوڑ جائے۔یہ ہے وہ خوف جو ”موٹے ہاتھ والے“ کوربڑ پائپ پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔وہ چاہتا ہے کہ یہ بچہ اپنی پیاس بجھانے کے علاوہ اور کچھ سوچ بھی نہ سکے۔اسے ایسے حالات میں رکھا جائے کہ وہ پانی کے چند قطروں کی خیرات کو اپنا سرمایہ ¿ حیات سمجھتا رہے۔جب تک اُس کی روح جسم کے پنجرے میں قید ہے وہ کبھی اپنے آپ کو تو کبھی اس نل کوکوستا رہے۔وہ لمبے انتظار کے بعد مڑ مُڑ کر اِسی نل کی طرف آتا رہے جو اُسے اکثر مایوس کرتا ہے۔اور کبھی حلق تر کرنے کو چند قطروں کی خیرات بھی دے دیتا ہے۔

ٓٓآج تیسری دنیا کا ایک عام آدمی وہی ”سانولا بچہ“ہے،جو کسی مٹھی میں دُہرے کیے گئے پائپ کے آگے لگے نل کے سامنے بیٹھ کر پانی کے چطن قطروں کے انتطار میں عمر گزار دیتاہے۔کئی مرتبہ انتظار کرتے ہوئے اس کی امّیدیں ڈوبنے لگتی ہیں اور وہ نل کے سامنے سے اُٹھنے لگتا ہے،تو اچانک نل کے منہ سے ہوا کی بھک بھک کے ساتھ چند قطرے بر آمد ہوتے ہیں۔جن میں چند اس کے حلق میں اُتر پاتے ہیں۔اس طرح ایک باار پھر امّید کی شمع جل اُٹھتی ہے اور دوبارہ سے وہ نل کے سامنے اکڑوں بیٹھنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔”موٹے ہاتھ“والا اُسے بالکل مایوس بھی نہیں کرتا کہ کہیں باغی ہو کر نل اور پائپ سب کچھ برباد ہی نہ کردے اور بہت زیادہ پُر امّید بھی نہیں ہونے دیتا کہ ناحق جی اُٹھے گا۔

مالکِ ارض و سماءنے ”پانی“ سب کے لئے بنایا ہے۔اس نے” پانی“ کے استحقاق کے باب میں ماننے اور نہ ماننے والے کی کوئی تخصیص نہیں کی۔اُس نے سب رنگوں ،نسلوں،زبانوں،علاقوں اور قوموں والوں کواس نل سے استفادے کا اپنی صلاحیتوں اور ضرورتوں کی بقدر استفادے کا اذن عام دیا ہے۔پھر یہ” موٹے ہاتھ والے“ بیچ میں کہاں سے آ ٹپکے کو عام استفادے کی رسد گاہوں پر ناکے لگائے بیٹھے ہیں۔جو پائپ کر دُہرا کر کہ اپنی مٹھی میں دبائے ہوئے ہیں۔جب اور جس قدرچاہتے ہیں گرفت ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیںاور جب چاہتے ہیں اپنی مٹھی بھینچ لیتے ہیں۔مالک نے اگر طلب کو آزاد چھوڑا ہے تو رسد کی کسی راہ پر بھی کوئی قدغن نہیں لگائی۔پھر یہ کون ہیں جو رسد کی اِن راہوں تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد اپنی چونگیا ں لگائے بیٹھے ہیں۔

No comments:

Post a Comment