Saturday 9 May 2015

کیا لکھنا ’سیکھا‘ جا سکتا ہے؟

کیا لکھنا ’سیکھا‘ جا سکتا ہے؟

جرمنی کے شہر لائپزگ میں قائم ’لائپزگ لٹریچر انسٹیٹیوٹ‘ ایک ایسی درس گاہ ہے جہاں تصنیفی تخلیقات کا فن سکھایا جاتا ہے۔ عام لفظوں میں یہاں لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ مگر کیا کسی کو لکھنا سکھایا جا سکتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ادیب پیدا ہوتا ہے۔ مگر کیا واقعی؟
کیا لکھنا سکھایا جا سکتا ہے؟ مگر شیکسپیئر کو کس نے لکھنا سکھایا تھا؟ غالب نے کس کری ایٹو رائٹنگ کی درس گاہ سے شعر کہنا سیکھا تھا؟ جدید مغربی ادب کے موقر نام جیسے کہ فرانس کافکا، ژاں پال سارت، کامو، ژاں جنے، مارکیز اور ملان کنڈیرا کیا درس گاہوں سے تیاّر ہو کر آئے تھے؟ کیا منشی پریم چند، کرشن چندر اور منٹو نے افسانے لکھنے کی تکنیک باقاعدہ کسی اسکول سے سیکھی تھی۔ کیا جون ایلیاء نے امروہے کے کسی اسکول میں بحرِ رجز پر عبور حاصل کیا تھا؟ جواب یقیناً نفی میں ہے۔
عہدِ حاضر کے ایک بڑے ادیب گنٹر گراس جن کا تعلق جرمنی سے ہے
مگر کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لکھنا سیکھنا ہی نہیں چاہیے؟ آرٹ سیکھا نہیں جا سکتا مگر کرافٹ تو سیکھی جا سکتی ہے۔ اور اگر تخلیقی ادب آج کی دنیا میں ایک سائنس کی حیثیت اختیار کر گیا ہے تو اسکولوں سے لے کر یونیورسیٹوں تک اس کو سکھایا جانا بھی ضروری ہے۔
جدید ’کری ایٹو رائٹنگ اسکولز‘ گو کہ امریکی ایجاد ہیں مگر یورپ میں بھی خاصے عرصے سے ان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہاں سے اعلیٰ درجے کے مصنّف تیّار ہو کر نکلتے بھی ہیں۔
جرمنی کے مشرقی شہر لائپزگ میں ایسا ہی ایک انسٹیٹیوٹ منقسم جرمنی کے زمانے سے کام کررہا ہے۔ ’لائپزگ لٹریچر انسٹیٹیوٹ‘ میں چنندہ نوجوانوں کو داخلہ دیا جاتا ہے اور ان کو مصنّف بنانے کے لیے تمام تر تخلیقی اور سائنسی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا ادیبوں کا خاندان ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں بھی غیر رسمی طریقے سے بعض نوجوان گھروں سے اور اپنے سینئیر دوستوں اور احباب سے لکھنا پڑنا سیکھ کر غیر معمولی ادیب بن جاتے ہیں۔ سو لائپزگ کے اس انسٹیٹیوٹ میں بھی ماحول کچھ ایسا ہی ہے۔
اس انسٹیٹیوٹ سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک طالبِ علم، کلاؤڈیئس نائٹسن اب ناشر بن چکے ہیں۔ ان کا اس انسٹیوٹ کی افادیت کے بارے میں کہنا ہے کہ ڈگری کا تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا تاہم یہ ادارہ آپ کو مصنّف بنا کر نکالتا ضرور ہے: ’مینیجر بننے سے پہلے میں یہاں ایک طالبِ علم تھا۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب ہمارے استاد نے ہمیں پہلے دن بتایا تھا کہ اس ڈگری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور میرے خیال میں ان کی بات میں کافی حد تک صداقت تھی۔ تخلیق کار کے طور پر آپ اس ڈگری کا کیا کریں گے؟ یہاں صرف تجربہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہاں جو بھی آتا ہے وہ مصنّف بن کر نہیں نکلتا‘
اس انسٹیٹیوٹ ک ایک طالبِ علم، یورن ڈیگے، یہاں اپنی تخلیقی سرگرمریوں کا احاطہ کچھ یوں کرتے ہیں: ’’ابھی تک میری کوئی کتاب نہیں چھپی ہے۔ مجھے ابھی تک اپنے کام کو لوگوں کے سامنے پڑھنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا۔ اس معاملے میں میں ابھی ناتجربہ کار ہوں‘‘
مگر وہ دن دور نہیں کہ ڈیگے یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر اپنی کتابیں چھپوا بھی سکیں گے اور ان کو اپنی تحریروں کے ابلاغ کا بھی موقع ملے گا۔
کلاؤڈیئس نائٹسن ناشر ہونے کی حیثیت سے ایسے ہی مصنّفوں کی کتابوں کی نمائش بھی کرتے ہیں: ’اس ادارے میں یولی سیہ، کلیمنس مائیر اور ٹوبیاس ہولسوٹ کی طرح کے مصنفّوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ہمارے یہاں ایک بک شیلف ہے جو اب کتابوں سے بھر چکا ہے۔ اس میں اضافے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس دوران بہت سی نئی کتابں مارکیٹ میں آچکی ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے‘
اس ادارے میں نہ صرف یہ کہ داخلے کا معیار بہت بلند ہے بلکہ یہاں سے سند لے کر نکلنا بھی آسان نہیں ہے۔ جرمنی اپنے ادیبوں اور لکھنے والوں کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ ’لائپزگ لٹریچر انسٹیٹیوٹ‘ گنٹر گراس پیدا کرنے کا دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن اس کا یہ دعویٰ ضرور ہے کہ اگر کسی میں گنٹر گرلاس بننے کی صلاحیت ہے تو وہ اس کو نکھار ضرور سکتا ہے اور ان کو وہ مواقع بھی فراہم کرسکتا ہے جو گراس کو حاصل نہیں تھے جیسا کہ کتابیں چھپوانے کے لیے ادبی ایجنٹوں تک رسائی وغیرہ۔
بشکریہ
http://www.dw.de/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A7-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%DA%BE%D8%A7-%D8%AC%D8%A7-%D8%B3%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%DB%81%DB%92/a-4157327

No comments:

Post a Comment