Sunday 24 May 2015

گلزار کی ایک نظم


گلزار کی ایک نظم



کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے​
 

2 comments:

  1. بہت خوب انتخاب۔۔۔ کتاب اور کنڈل میں فرق سمجھانے کا خوب انداز ہے

    ReplyDelete
  2. فرحان فانی کتاب بینی اور ڈیجیٹل لرننگ یا ریڈنگ میں فرق چاشنی کا ہے'امرت کا ہے'سکوں کا ہےاور سب سے بڑھ کے شائداس تہذیبی اور اخلاقی رکھ رکھاوکا ہےجو ہماری معاشرتی تربیت اور ٹھہراو کا باعث رہی ہے اور اب ایک انگلی کی جنبش اس کو کئی پردوں میں چھپا نہیں بلکہ دبا دیتی ہے ۔ داد دینی چاہیے اس کی ہمت کو کو پھر بھی پردوں سے بار بار سر نکالتی ہے اور آپ جیسے لوگوں کوچحا کرتی ہے-

    ReplyDelete